بائیڈن کے اوول آفس کی دیواروں پر کیا آویزاں ہے؟

وائٹ ہاؤس کی دیواروں پر آویزاں آرٹ اس کا انتخاب کرنے والے صدر کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟

ہر انتظامیہ کی ابتدا کے موقع پر ہر صدر یہ انتخاب کرتا ہے کہ اوول آفس اور باقیماندہ وائٹ ہاؤس کو کیسے سجانا ہے۔

صدر بائیڈن نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اوول آفس کے آتش دان کے ارد گرد لگائے جانے والے سات فن پاروں کا انتخاب کیا۔ صدر سے ملنے کے لیے آنے والی اہم شخصیات ملاقات کے دوران اِن فن پاروں کو دیکھیں گیں۔

یہ فن پارے صدر کی میز کے بالکل سامنے آویزاں ہیں اور صدر کے لیے اس بات کی بصری یاد دہانی کا کام دیتے ہیں کہ وہ ملک کی کس طرح قیادت کرنا چاہتے ہیں۔

صدرنے آتش دان کے کارنیس کے عین اوپر وسط میں لگانے کے لیے فرینک او سالسبری کی بنائی ہوئی فرینکلن ڈی روز ویلٹ کی تصویر کا انتخاب کیا۔ روز ویلٹ کی “نیو ڈیل” (نئے سمجھوتے) کے تحت اپنائی جانے والی پالیسیوں نے عظیم کساد بازاری کے دور میں امریکی معیشت کو دوبارہ مضبوط بنایا۔ روز ویلٹ نے دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کی قیادت بھی کی۔

آتش دان کی بائیں جانب ملک کے پہلے صدر، جارج واشنگٹن اور غلامی کا خاتمہ کرنے والے ملک کے سولہویں صدر، ابرہام لنکن کی تصاویر آیزاں ہیں۔

بائیڈن نے فروری میں سی این این کو بتایا، “ماضی میں ہمیشہ میں نے صدارت کو ابرہام لنکن اور فرینکلن روز ویلٹ اور جارج واشنگٹن کے حوالوں سے دیکھا ہے۔”

 صدر بائیڈن، رابرٹ ایف کینیڈی کے اوپر کے دھڑ کے مجسمے کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں (© Evan Vucci/AP Images)
اوول آفس میں صدر بائیڈن کی کرسی کے پیچھے رابرٹ ایف کینیڈی کے اوپر کے دھڑ کا مجسمہ نصب ہے۔ (© Evan Vucci/AP Images)

آتش دان کی بائیں جانب تھامس جیفرسن اور امریکی مالیاتی نظام وضح کرنے والے اُن کے سیاسی حریف، الیگزینڈر ہیملٹن کی تصاویر لگائی گئی ہیں۔  نیو یارک ٹائمز کے مطابق دونوں کی تصاویر کو “اس بات کو اجاگر کرنے کے لیے ساتھ ساتھ لگایا گیا ہے کہ دلائل اور تقسیم دائمی ہیں۔”

آتش دان کی دائیں طرف میز پر صدر جان ایف کینیڈی کے بھائی، رابرٹ ایف کینیڈی کا اوپر کے دھڑ کا کانسی کا بنا ہوا ایک مجسمہ رکھا ہوا ہے۔ رابرٹ کینیڈی نے امریکہ کے اٹارنی جنرل او امریکی سینیٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ وہ 1960 کی دہائی میں ایک صدارتی امیدوار بھی تھے۔ بائین جانب ایک اور میز پر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا اوپر کے دھڑ کا مجسمہ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے بھی 1960 کی دہائی میں ملک میں شہری حقوق کی تحریک کی قیادت کی۔ دونوں شخصیات کو 1968ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اِن تصاویر کا کیا مطلب نکلتا ہے؟

جان بیچم صدارتی سوانح نگار ہیں۔ بائیڈن نے اوول آفس میں آرٹ کے بارے میں اُن سے مشورہ کیا۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز کو بتایا، “اوول آفس کی سجاوٹ اکثر تاریخ کے بارے میں صدر کے نظریے اور مستقبل کے لیے ان کی امیدوں کی نوعیت کی عکاسی کرتی ہے۔”

“صدور کو ایک منفرد مقام حاصل ہوتا ہے، اس لیے نہیں کہ اُن کی حیثیت تاریخی نظریے کے ایک مقصد کی سی ہوتی ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ اس کے معمار ہوتے ہیں۔ لہذا گزرے برسوں میں اِن کی فہرست مرتب کرنے اور اوول آفس کی ورچوئل چھت پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف ان کہانیوں کی کتنی قدر کرتے ہیں جن میں انہیں دلچسپی ہوتی ہے بلکہ اُن کہانیوں کے بارے میں بھی پتہ چلتا ہے جو وہ خود لکھ رہے ہوتے ہیں۔”