امریکہ کے نئے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے ملیے

امریکہ کے چوٹی کے نئے سفارت کار، انٹونی بلنکن کو اُن کی امریکہ کے محکمہ خارجہ میں واپسی، اپنی پیشہ وارانہ اور خاندانی روایات، دونوں کو آگے بڑہانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔

بلنکن جن کی امریکی سینیٹ نے 26 جنوری کو وزیر خارجہ کی حیثیت سے توثیق کی، اُسی محکمہ خارجہ کی قیادت کریں گے جس میں وہ کلنٹن اور اوباما کے دور میں پہلے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ عوامی خدمت میں وہ اپنے والد اور چچا کے نقشہائے قدم پر چل رہے ہیں۔ وہ دونوں امریکہ کے سفیر تھے۔

امریکہ کے اکہترویں وزیر خارجہ کے طور پر نامزدگی کے بعد بلنکن نے 19 جنوری کو سینیٹ کو ایک سماعت میں بتایا کہ وہ کووڈ-19 وبا جیسے عالمگیر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ انہوں نے عظیم تر بھلائی کے لیے دوسروں کو متحرک کرنے کی امریکی اہلیت کی بھی تعریف کی۔

بلنکن نے سینیٹ کی سماعت کے دوران کہا، “بہت کچھ تبدیل ہونے کے بعد بھی، بعض چیزیں بدستور مستقل ہیں۔ امریکی قیادت اب بھی اہم ہے۔” انہوں نے مزید کہا، “ہمیں جن بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، تنہا کام کرتے ہوئے کوئی ملک بھی اُن کا سامنا نہیں کر سکتا – بے شک وہ اتنا طاقت ور ہو جتنا کہ امریکہ ہے۔”

بلنکن نے عوامی خدمت کی اپنی خاندانی روایت کو برقرار رکھنے کو بھی “ایک مقدس فرض” قرار دیا۔

بلنکن کہہ چکے ہیں کہ دنیا میں امریکہ کے کردار کے بارے میں اُن کا نقطہ نظر، ظلم و زیادتیوں سے بھاگ کر امریکہ آنے والے اُن کے خاندان کے افراد کے تجربات کی روشنی میں تشکیل پایا ہے۔

اُن کے دادا، مارس بلنکن روس میں کیے جانے والے نسلی قتل عام سے جان بچانے کے لیے وطن چھوڑ کر امریکہ آئے۔ اُن کی سوتیلی والدہ، ویرا بلنکن کمیونسٹ ہنگری سے فرار ہوئیں اور بعد میں انہوں نے دیگر مہاجرین کی امریکہ آنے میں مدد کی۔ بلنکن کے سوتیلے والد، سیموئل پِسار نازیوں کے مشقتی کیمپوں میں چار برس تک قید رہے اور امریکی فوجیوں نے (نازی جرمنی میں)  “موت کے مارچ” سے اُن کی جان بچائی۔

24 نومبر کو، جب تب کے نو منتخب صدر بائیڈن نے انہیں وزیر خارجہ کے طور پر نامزد کیا تو بلنکن نے کہا، “امریکیوں کی بہت ساری نسلوں کی طرح میرے خاندان کے لیے بھی حقیقی معنوں میں امریکہ بدستور روئے زمین پر آخری امید بنا ہوا ہے۔”

ٹوئٹر

اینٹونی بلنکن

میرے والدین اور اُن کے والدین میں تارکین وطن، مہاجرین، اور ہولوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والا ایک شخص شامل تھا۔ اُن کے لیے اور بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے، امریکہ روئے زمین پر بہترین امید تھا۔ اُن کی کہانیوں نے مجھ میں خدمت کرنے کا جذبہ پیدا کیا۔

امریکہ کے کمال کی وجہ سے میں یہاں ہوں – یہی وہ کچھ  ہے جسے میں آنے والی نسلوں کے لیے بحال کرنے میں مدد کرنے کی امید لیے ہوئے ہوں۔ 

یونکرز، نیویارک میں پیدا ہونے والے بلنکن کا تعلق پبلک سرونٹس (عوامی خادموں) اور سفارت کاروں کے خاندان سے ہے۔ اُن کے والد، ڈونلڈ نے امریکی فضائی فوج اور ہنگری میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اُن کے چچا، ایلن بلنکن بلجیئم میں امریکہ کے سفیر رہے۔

ہولوکاسٹ سے زندہ بچ نکلنے کے بعد بلنکن کے سوتیلے والد نے ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور صدر کینیڈی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

بلنکن ہارورڈ یونیورسٹی اور کولمبیا لا سکول کے گریجوایٹ ہیں۔ انہوں نے 1994ء میں محکمہ خارجہ میں شمولیت اختیار کی۔ بعد میں بلنکن نے کلنٹن کے وائٹ ہاؤس میں مختلف عہدوں پر کام کیا۔ انہوں نے امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے عملے میں بھی کام کیا۔ اس دوران انہوں نے تب کے ریاست ڈیلویئر کے سینیٹر، بائیڈن کے ساتھ قریبی طور پر مل کر کام کیا۔

2008ء میں اوباما کے صدر منتخب ہونے کے بعد، بلنکن تب کے نائب صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر بنے۔ اس کے بعد انہوں نے قومی سلامتی کے نائب پرنسپل مشیر کی حیثیت سے کام کیا۔ انہیں 2015ء میں نائب وزیر خارجہ مقرر کیا گیا۔

بلنکن بار بار اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی، ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور کووڈ-19 وبا جیسے عالمگیر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دوسرے ممالک کو اکٹھا کرنے میں امریکہ کا ایک انتہائی اہم کردار ہے۔

انہوں نے 24 نومبر کو کہا، “ہمیں دوسرے ممالک کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اُن کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ہمیں اُن کی قیادت کی ضرورت ہے۔”