جب شرمین عبید چنائے نے غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کے منصوبے میں زندہ بچ جانے والی ایک عورت کے بارے میں اپنی مختصر دستاویزی فلم A Girl in the River: The Price of Forgiveness, [ دریا میں ایک لڑکی: معافی کی قیمت] کے لیے اکیڈمی ایوارڈ قبول کیا، تو انھوں نے دوٹوک انداز میں کہا: “جب باحوصلہ عورتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں، تو بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔” انھوں نے مردوں کی بھی پذیرائی کی — ایسے مردوں کی جو عورتوں سے” سکول جانے اور کام کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور جو عورتوں کے لیے زیادہ منصفانہ معاشرے کے طلب گار ہیں۔”
غیرت کے نام پر قتل دنیا بھر میں ہوتے ہیں، تاہم ایسے واقعات سب سے زیادہ جنوبی ایشیا میں ہوتے ہیں۔ عورتوں کو اس لیے قتل کر دیا جاتا ہے کہ وہ جبری شادی پر اعتراض کرتی ہیں یا کسی اور وجہ سے اپنے خاندانوں کی مزاحمت کرتی ہیں — یا بعض اوقات صرف اس لیے کہ اُنہیں جبری آبروریزی کا نشانہ بنایا گیا ہوتا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق، ہر سال ایسے ہزاروں قتل ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے بہت سوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی جاتی۔
امریکہ ایک طویل عرصے سے عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف کسی بھی جگہ ہونے والے تشدد کی مذمت کرتا چلا آ رہا ہے۔ 1 بھی بہت زیادہ ہے: عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد کے خلاف جنگ کے عنوان کے تحت وائٹ ہاؤس کی ایک خصوصی رپورٹ میں وہ اقدامات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں جو ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر اس قسم کے جرائم ختم کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔

امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا، اے گرل ان دا ریور ” ایک ایسی باہمت نوجوان عورت کی زبردست کہانی ہے جو غیرت کے نام پر اپنے والد اور چچا کی طرف سے کی جانے والی قتل کی ایک کوشش میں بچ نکلی۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اس فلم کے دکھائے جانے کے بعد، پاکستان کے وزیرِاعظم نواز شریف نے اُن قوانین کو تبدیل کرنے کا عہد کیا جن کے تحت ایسی وحشیانہ رسومات اور قتل کی وارداتوں کو روا رکھنے کی اجازت ہے۔”
وزیراعظم کے رد عمل کے بارے میں عبید چنائے نے کہا، ” یہ فلم کی طاقت ہے۔”
صدر اوباما ایسے فنکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں “جن کے ہاتھ میں انسانی ذہن اور رویے تبدیل کرنے کی منفرد طاقت ہے،” تا کہ جنس کی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد کے خاتمے میں مدد مل سکے۔ انھوں نے 2015ء کے گریمی ایوارڈز کے حاضرین سے کہا، “ہم سب مل جل کر عورتوں اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کا خاتمہ کر کے، اپنے معاشرے میں ایک بہتر تبدیلی لا سکتے ہیں۔”
یہ عبید چنائے کا دوسرا آسکر ایوارڈ ہے۔ اس سے قبل 2012ء میں انھوں نے اپنی فلم ” سیونگ فیس ” کے لیے پہلا آسکر ایوارڈ جیتا تھا۔ یہ دستاویزی فلم تیزاب پھینکنے کے حملوں کا شکار ہونے والی عورتوں کے بارے میں ہے۔