تالین میں رقص وموسیقی کے میلے میں شریک عورتیں، ایستونیا کے روایتی لباس پہنے ہوئے ہیں۔ (© AP Images)

بالٹک ممالک اپنے ثقافتی ورثے کو منانے  اور محفوظ رکھنے کے لیے ایک طویل عرصے سے رقص اور موسیقی کا سہارا لیتے چلے آئے ہیں۔

اس روایت کا حال ہی میں اُس وقت مظاہرہ کیا گیا جب  یورپی یونین کے سفارت خانوں کے اوپن ہاؤس  والے دن ایستونیا، لاتویا اور لتھوینیا کے بالٹک ممالک نے مہمانوں پر اپنے سفارت خانوں کے دروازے کھول دیے۔ موسم بہار میں منعقعد ہونے والی اس سالانہ تقریب میں واشنگٹن میں یورپی یونین  کے تمام کے تمام  28 ملکوں کے سفارت خانے حصہ لیتے ہیں۔

اس دن ہزاروں مقامی لوگ اور سیاح سفارت خانوں کی ایک اندرونی جھلک دیکھنے اور ہر ملک کے روایتی کھانوں، آرٹ اور تفریحات سے لطف اندوز ہونے کی خاطر متعلقہ سفارت خانے کے باہر قطاروں میں آ کر کھڑے ہو گئے۔ اس سال ’اوپن ہاؤس‘ میں یورپی یونین کے قیام کی 60 ویں سالگرہ بھی منائی گئی جس میں تینوں بالٹک ممالک 2004ء میں شامل ہوئے تھے۔

ایستونیا کے نغمے

Children singing outside embassy (State Dept/D.A. Peterson)
ایستونیائی ـ امریکی گلو کار بچوں کے ایک طائفے نے ایستونیا کے سفارت خانے کے باہر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ (State Dept./D.A. Peterson)

ایستونیا کے سفارت خانے میں مہمان، ایستونیا اور امریکہ کے گلوکار بچوں کے اس طائفے کی پیش کش سے بھی لطف اندوز  ہوئے، جس نے حال ہی میں ایستونیا کے دارالحکومت، تالین میں اس سال موسم گرما میں ہونے والے موسیقی کے فیسٹیول میں شرکت کے لیے منعقد کیے گئے ایک مقابلے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

گلوکاری ایستونیائی قومیت کی ایک دیرینہ علامت ہے۔ اس کا خصوصی مظاہرہ تالین فیسٹیول گراوًنڈز میں ہونے والے رقص و موسیقی کے میلوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ ہر پانچ سال بعد اس موقع پر 20,000  گلوکار کھلے آسمان تلے طائفوں کی شکل میں ہونے والے ایک کنسرٹ  میں اپن فن کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہزاروں تماشائی ان کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔

سفارت خانے کی ایک رضاکار ایوی چیڈویل کا کہنا ہے، “میں جب بچپن میں ایستونیا میں تھی تو ایستونیا کے گیت اور رقص میرے لیے انتہائی اہم تھے۔ میں اگرچہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں پلی بڑھی مگر مجھے گیتوں کے  میلے کے لیے بس میں تالین لے جایا جاتا تھا۔” آج کل چیڈویل، تالین فیسٹیول کے لیے ایستونیائی ـ امریکی بچوں کی تیاری میں مدد کر تی ہیں۔

تینوں بالٹک ممالک اپنے “گیتوں بھرے انقلابوں” کے باعث مشہور ہیں، جن میں لوگ اپنی جدوجہدِ آزادی کے دوران حب الوطنی کے گیت گاتے تھے۔

لتھوینیا کا آرٹ

Woman standing next to poster (State Dept./D.A. Peterson)
جنٹیئرگیڈریمیٹ اُس پوسٹر کی وضاحت کر رہی ہیں جس میں علامتی طور پر امریکہ کے ساتھ لتھوینیا کے روابط کی عکاسی کی گئی ہے۔ (State Dept./D.A. Peterson)

جمہوریہ لتھوینیا کے سفارت خانے میں جیسے گلوکاری کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اسی طرح  پوسٹروں کی نمائش بھی دلچسپی کا مرکز بنی رہی۔ یہ پوسٹر لیتھوینیائی نژاد امریکیوں نے 1900 اور 1950 کے درمیانی عرصے میں بنائے تھے۔ ان میں سے بعض میں لیتھوینیا کے دیہی مناظر کے ساتھ ساتھ، امریکہ میں زندگی کے سہانے مستقبل کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

دوسرے پوسٹروں میں 1918ء میں حاصل کی جانے والی لتھوینیا کی آزادی کے لیے امریکہ کی  امداد پر لتھوینیائی  امریکیوں کے اظہار تشکر کی عکاسی کی گئی ہے۔

لتھوینیا کے سفارت خانے کے قونصلر کیسٹوٹس واسکا ویشیس نے کہا کہ 1924ء میں خریدی گئی سفارت خانے کی عمارت “ہمارے لیے امریکہ کی حمایت کی علامت ہے۔ ہم نے 90 برس سے زیادہ عرصے تک اپنے دروازے کھلے رکھے۔”

لاتویا کا رقص

Latvian dancers in traditional dress (State Dept./D.A. Peterson)
لاتویا کے سفارت خانے کے سامنے لاتویا کے روایتی رقاص اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ (State Dept./D.A. Peterson)

امریکہ میں جمہوریہ لاتویا کے سفیر آندرس ٹیکمانس ان مہمانوں کا ذاتی طور پر استقبال کررہے تھے، جن کی طویل قطار بلاک کے عقب تک چلی گئی تھی۔ یہ لوگ لاتویا کا روایتی لوک رقص دیکھنے کے لیے آئے تھے۔

ٹیکمانس نے دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ کی حمایت کو سراہا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک نے اپنے دارالحکومت ریگا میں اُس سڑک کا نام “سمرویل سٹریٹ” رکھا ہے جہاں امریکہ کا سفارت خانہ واقع ہے، کیونکہ امریکہ کے قائم مقام وزیر خارجہ سمر ویلز نے یہاں پر، 1940ء  میں اُس دستاویز پر دستخط کیے تھے جس میں امریکہ کی طرف سے اُس وقت کے سوویت یونین کی جانب سے تینوں بالٹک ممالک کو ضم کیے جانے کی مذمت کی گئی تھی۔ اس دستاویز کوعام طور پر اعلانِ ویلز کہا جاتا ہے۔

سفیر نے کہا، “امریکہ نے ہمارا ساتھ دیا تھا۔”