اس ماہ کے اواخر میں، امریکہ اور بھارت جنوبی بھارت کے ساحل سے دور مسلح افواج کی تینوں شاخوں پر مشتمل “ٹائگر ٹرائمف” نامی فوجی مشقیں کریں گے۔ اپنی نوعیت کی ان اولین مشقوں میں توجہ انسانی امداد اور آفات کے دوران امدادی کاموں پر مرکوز کی جائے گی۔ بھارتی افواج کی تینوں شاخیں امریکہ کی بری، بحری، فضائی افواج اور میرین کور کے ساتھ مل کر اِن مشقوں میں حصہ لیں گی۔ امریکہ بحرہند و بحرالکاہل میں جس طرح سلامتی کے تعاون کو وسعت دے رہا ہے یہ مشقیں اُس کی تازہ ترین مثال ہیں۔
وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 2018ء میں کہا، “امریکی عوام اور پوری دنیا کے مفادات بحرہند و بحرالکاہل کے امن اور خوشحالی سے وابستہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بحرہند و بحرالکاہل بہرصورت آزاد اور کھلے ہونے چاہیئیں۔”
2017ء میں جب ٹرمپ انتظامیہ کی ابتدا ہوئی تو تب سے لے کر آج تک امریکہ بحرہند و بحرالکاہل میں اپنے شراکت کاروں کے ساتھ سکیورٹی کے امور پر تعاون میں 1.1 ارب ڈالر سے زائد لگا چکا ہے۔
ٹائگر ٹرائمف کے علاوہ بحری کاروائیوں کی مشق کرنے کے لیے جنوب مشرقی ایشیا میں امریکہ نے آسیان کے ساتھ مل کر اولین مشترکہ مشقیں کیں۔ مزید برآں بحیرہ جنوبی چین کے بین الاقوامی پانیوں تک رسائی کو یقینی بنانے کی خاطر امریکہ جاپان، بھارت اور فلپائن کے ساتھ پہلے مشترکہ بحری سفر میں شریک ہوا۔ ستمبر میں باہمی تعامل اور جہاز رانی کی سکیورٹی کو وسعت دینے کی خاطر امریکہ نے بھارت اور جاپان کے ساتھ سہ ملکی مالابار مشقوں میں شرکت کی۔
سمندری قزاقی اور سمگلنگ کے خاتمے کے لیے جنوب مشرقی ایشیا کی 10 ممالک پر مشتمل تعاون اور تربیت کی مشق، اِن مشقوں کے علاوہ ہیں۔
یہ تربیت اور مشترکہ مشقیں امریکہ کی بحرہند و بحرالکاہل کی اُس تزویراتی حکمت عملی کا حصہ ہیں جن سے بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کو آزاد اور کھلا رکھنے میں مدد ملتی ہے۔
سکیورٹی کا تعاون کیا ہے؟

سکیورٹی کے تعاون کا تعلق قومی دفاع سے بڑھکر کہیں زیادہ امور سے ہے:
خلیج بنگال میں سمندری قزاقی اور چوریوں میں 70 فیصد کمی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ بنگلہ دیش کی بحریہ اور کوسٹ گارڈ کو امریکہ کی طرف سے عطیے میں دی جانے والی کشتیوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ امریکی تربیت بھی ہے۔
امریکہ کے ساتھ سری لنکا، بنگلہ دیش اور مالدیپ کی مشترکہ تربیت میں غیرقانونی ماہی گیری، منشیات کی سمگلنگ اور انسانوں کے بیوپار کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ اس تربیت میں امریکہ مذکورہ ممالک کی بحری افواج اور کوسٹ گارڈز کو تربیت دینے کے علاوہ ساز و سامان بھی فراہم کرتا ہے۔
قدرتی وسائل تک رسائی کو جہاز رانی کی ایسی سرگرمیوں سے محفوظ بنایا جاتا ہے جن میں بحرہند و بحرالکاہل کے ممالک اپنے علاقائی پانیوں کے وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنے غیرقانونی سمندری دعووں پر زور دینے کی خاطر بیجنگ کی بار بار کی اشتعال انگیز کاروائیاں اِن ممالک کی 2.5 کھرب ڈالر کے توانائی کے نکالے جانے والے ذخیروں تک رسائی میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں۔ اس سے خطے میں عدم استحکام اور تصادم کے خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔
جیسا کہ نائب صدر پینس نے 2018ء میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم، آسیان کی سربراہی کانفرنس میں کہا، “ہم ایک ساتھ خوشحال رہیں گے۔ ہم اکٹھے محفوظ رہیں گے۔ ہم آزاد اور کھلے بحرہند و بحرالکاہل میں شراکت کاروں اور دوستوں کی حیثیت سے ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر آنا جاری رکھیں گے۔”