
بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں 100 سے زائد سکالر فوری چیلنجوں سے نمٹنے، علاقائی شناخت کے احساس کواجاگر کرنے اور بہتر مستقبل کی تعمیر کے لیے اکٹھے مل کر کام کر رہے ہیں۔
اس مقصد کے لیے فروری 2022 میں ‘انڈو پیسفک سرکل’ [آئی پی سی] کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا گیا۔ اس کے اراکین اجلاسوں، مضامین، پوڈ کاسٹوں اور رسائل کے لیے تحریر کردہ مضامین کے ذریعے سمندری سکیورٹی اور ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے لے کر خوراک کی سکیورٹی، موسمیاتی بحران اور صحت عامہ کے مسائل تک کے حل تلاش کرنے کے لیے صلاح مشورے کرتے ہیں۔
آئی پی سی کے فیلو اور نگران، گوراو سائنی نے آئی پی سی کے لیے ضروری کھلے بحث مباحثے کو اجاگر کرتے ہوئے شیئر امیریکا کو بتایا کہ ہم نے “انہیں بتا رکھا ہے کہ آپ جس [موضوع] پر چاہیں بات کر سکتے ہیں۔”
آئی پی سی کی سٹیئرنگ کمیٹی کے رکن ہیپی مون جیکب نے گزشتہ برس اس گروپ کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ آئی پی سی “خطے کے اندر سے ایسے نئے خیالات سامنے لانے، نئے نیٹ ورک تشکیل دینے اور بحثت مباحثے کرنے” کی کوشش کرتا ہے جو بحرہند و بحرالکاہل میں بیانیے تشکیل دینے میں مدد کریں گے۔”

بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں دنیا کی مجموعی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ رہتا ہے اور دنیا کی تقریباً دو تہائی معیشت کا تعلق اس خطے سے ہے۔ امریکہ بحرہند و بحرالکاہل کی ایک ایسے خطے کی حیثیت سے تعمیر کرنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے جو آپس میں جڑا ہوا ہو، خوشحال ہو اور محفوظ ہو۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ نے آئی پی سی کے قیام کے لیے گرانٹ فراہم کی ہے۔
آئی پی سی میں شامل سکالر اپنے پیشوں کے ابتدائی یا درمیانے درجوں میں ہیں اور ان کی عمریں 25 اور 45 برس کے درمیان ہیں۔ اُن کا تعلق دیگر ممالک کے علاوہ آسٹریلیا، بھارت، ملائشیا، سنگاپور اور جنوبی کوریا سے ہے۔
#IPCPanel Offering a diversity of ideas and regional Perspectives on #indoPacific #Quad #USA #japan #Australia #India #1yearofIPC pic.twitter.com/PzoIyUrZh3
— Indo Pacific Circle (@IP_Circle) February 13, 2023
سائنی بھارت سے کام کرتے ہیں اور خارجہ پالیسی اور تصادموں کے حل نکالنے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ آئی پی سی کے سکالروں کا تعلق متنوع خطے سے ہے تو اُن کا متفق نہ ہونا ایک فطری سی بات ہے۔ آئی پی سی متنوع نقطہائے نظر، مسائل کی نشاندہی کرنے والی مختلف ترجیحات بیان کرنے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک فورم کا کام دیتا ہے۔
سائنی نے کہا کہ مقامی نقطہائے نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں باہمی شراکت کاری کو فروغ دینا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ “محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ یہ بین الاقوامی طور طریقے ہیں۔” جب لوگ اختلاف رائے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں تو اس وقت بھی وہ منفرد نقطہائے نظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
سائنی نے مزید کہا کہ یہاں “مقصد یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارم کام کرتا رہے تاکہ لوگ مشکل اور پیچیدہ موضوعات پر بات چیت کرنے میں کوئی دقت محسوس نہ کریں۔”

“کونسل فار سٹرٹیجک اینڈ ڈیفنس ریسرچ” اور “سنٹر فار پالیسی ریسرچ” بھارت میں قائم دو تھنک ٹینک ہیں اور ان دونوں اداروں نے مل کر آئی پی سی کی بنیاد رکھی ہے۔ آئی پی سی کے حالیہ اجلاسوں میں ویکسین کی تقسیم میں پائی جانے والی عدم مساوات، کووڈ-19 وبا کے علاقائی شراکت کاری پر مرتب ہونے والے اثرات اور آسٹریلیا اور جاپان کے درمیان تعلقات پر مرکوز کی گئی۔ آسٹریلیا اور جاپان کواڈ شراکت داری کے رکن ہیں جس میں بھارت اور امریکہ بھی شامل ہیں۔
سائنی کہتے ہیں کہ بحث مباحثے سادہ طریقے سے آگے بڑھتے ہیں اور آئی پی سی اراکین کے مابین علاقائی شناخت کا احساس پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی سی کے ذریعے بننے والے روابط اور تعلقات اس گروپ کے اراکین اور بحرہند و بحرالکاہل کو مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
سائنی نے بتایا کہ “ہم موضوعات پر بات کرنے پر کوئی شرط عائد کیے بغیر سکیورٹی کے غیر روائتی مسائل پر بات چیت کے لیے ایک دیرپا پلیٹ فارم تشکیل دینا چاہتے تھے۔” انہوں نے کہا کہ آئی پی سی بحرہند و بحرالکاہل کے لوگوں کو “اپنی بات کہنے کا موقع دیتا ہے۔”