بحرین اور اسرائیل کے سمجھوتے سے ٹرمپ کا امن کو فروغ دینا

وائٹ ہاؤس کے باہر میز کے پیچھے کرسیوں پر بیٹھے صدر ٹرمپ اور تین آدمی۔ اُن کے پیچھے قطار میں لگے جھنڈے اور تالیاں بجاتی ہوئی ایک عورت (White House/Shealah Craighead)
صدر ٹرمپ (بائیں سے تیسرے)، بحرین کے وزیر خارجہ عبد اللطیف بن راشد الزیانی (بائیں)، اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو (بائیں سے دوسرے)، اور اماراتی وزیر خارجہ عبد اللہ بن زید النہیان (دائیں)، 15 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں معاہدوں پر دستخط کر رہے ہیں۔ (White House/Shealah Craighead)

مشرق وسطی میں امن کے امکانات قوی تر ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ امریکہ نے اسرائیل اور سلطنتِ بحرین کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ایک معاہدہ کروایا ہے۔ اگست میں متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے پر اتفاق کرنے کے ایک ماہ کے اندر یہ دوسرا معاہدہ ہے۔

صدر ٹرمپ نے 11 ستمبر کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور بحرین کے شاہ حماد آلخلیفہ کے ساتھ فون پر بات کرنے کے بعد اس معاہدے کا اعلان کیا۔

ٹرمپ نے کہا، “میں اسرائیل اور بحرین کے رہنماؤں کا یہ تاریخی معاہدہ کرنے میں اُن کی طرف سے دور اندیشی اور جرات سے کام لینے پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی قیادت یہ ثابت کرتی ہے کہ مستقبل کو امیدوں سے بھرا جا سکتا ہے اور اسے ماضی کے تصادموں کی روشنی میں پہلے سے طے کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔”

ٹرمپ نے کہا کہ معاہدوں کے بارے میں مشرق وسطی میں “زبردست جوش و خروش” پایا جاتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے مزید کہا کہ دوسرے عرب ممالک بھی اسی طرح کے اقدامات اٹھائیں گے۔

انہوں نے 11 ستمبر 2001 کی برسی کے موقع پر امن معاہدے کے طے پانے کو دہشت گردی کے حملوں کی اُس منافرت کا ایک زبردست ردعمل قرار دیا جس نے اس سانحے کی آگ بھڑکائی تھی۔

ان معاہدوں کو یادگار بنانے کے لیے 15 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیل، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے رہنما صدر ٹرمپ کے ساتھ شامل ہوئے۔

 صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں ایک دروازے کے باہر تین آدمیوں کے ساتھ کھڑے ہیں (White House/Tia Dufour)
15 ستمبر 2020 کو صدر ٹرمپ (دائیں)، اماراتی وزیر خارجہ عبد اللہ بن زید النہیان (بائیں)، بحرین کے وزیر خارجہ عبد اللطیف بن راشد الزیانی (بائیں سے دوسرے)، اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو (بائیں سے تیسرے) سے وائٹ ہاؤس میں باتیں کر رہے ہیں۔ (White House/Tia Dufour)

امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حالیہ معاہدوں سے مشرق وسطی میں خوشحالی کو فروغ ملے گا۔ نئے معاہدے کے تحت بحرین اور اسرائیل سفیروں کا تبادلہ کریں گے، ایک دوسرے کے ملک میں اپنے سفارت خارنے قائم کریں گے اور دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازیں شروع کریں گے۔ صحت، کاروبار، ٹکنالوجی، تعلیم، سکیورٹی اور زراعت سمیت، دونوں ممالک مسائل کے ایک وسیع سلسلے پر تعاون کریں گے۔

اسرائیل اور بحرین کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ، ٹرمپ کے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان اسی طرح کا ایک معاہدہ کروانے کے 30 دن بعد ہوا ہے۔ بحرین اب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کرنے والا چوتھا عرب ملک ہے۔ مصر نے 1978ء میں یہ قدم اٹھایا اور اردن نے 1994ء میں اس کی پیروی کی۔

مشرق وسطی میں امن کا فروغ، ٹرمپ انتظامیہ کی اولین ترجیح چلی آ رہی ہے۔ جون 2019 میں وائٹ ہاؤس نے فلسطینی عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور خطے میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے 50 ارب ڈالر کا “امن سے خوشحالی” کا منصوبہ پیش کیا۔

ٹویٹ کی عبارت کا خلاصہ:

وزیر خارجہ پومپیو @SecPompeo

 صدر ٹرمپ کی قیادت نے عرب ممالک کے اتحاد کی اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے، تعلقات کو معمول پر لانے اور پائیدار تعلقات استوار کرنے میں راہنمائی کی ہے۔ اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے رہنماؤں کی جانب سے ابراہیمی سمجھوتے پر دستخط کے نتیجے میں ان تینوں اقوام کے مستقبل بہتر ہوں گے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا کہ دونوں معاہدے مشرق وسطی میں امن اور خوشحالی کے لیے نئے امکانات لے کر آئے ہیں۔

پومپیو نے 11 ستمبر کو ایک بیان میں کہا، “صدر نے اس انتظامیہ کی ابتدا میں ہی یہ بات سامنے رکھ دی تھی کہ وہ امریکہ کی دوستیوں کو مضبوط بنائیں گے اور امن کے حصول کے لیے نئی شراکتیں قائم کریں گے۔ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔”