جنوبی کوریا کے صدر مُون جے- اِن کی پیدائش سے قبل، دسمبر 1950ء میں اُن کے والدین اور اور بہن جنگ کی تباہ کاریوں سے جان بچا کر بھاگنے والے لوگوں میں شامل تھے۔ وہ سامان اور ہتھیاروں سے لدے “میریڈتھ وِکٹری” نامی امریکی بحری جہاز پر سوار ہونے والے لوگوں کے ہجوم میں شامل تھے۔ جہاز سے اِن سب لوگوں کو چھپانے کے لیے جگہ بنانے کی خاطر، سامان اور ہتھیار اتار پھینکے گئے۔
مُون نے 28 جون 2017 کو ریاست ورجینیا میں اِنسانی بنیادوں پر سرانجام دیئے جانے والے اِس معرکے میں شامل سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ مُون نے کہا، ” ‘عزت’ اور ‘ممنونیت’ جیسے الفاظ اس کے لیے قطعی ناکافی ہیں۔” انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں اپنے لڑکپن میں بھی لوگوں کی جانیں بچانے کی اس مہم کے بارے میں علم تھا کیونکہ اُن کی والدہ، جو اب 90 برس کی ہیں وہ واقعات بڑے واضح انداز سے اُنہیں سنایا کرتی تھیں۔

معجزات
جنگجِن کی لڑائی میں، جسے امریکہ میں جھیل چوسین کی لڑائی کہا جاتا ہے، اقوام متحدہ کے دستے کمیونسٹ فوجوں کے حصار کو توڑ کر باہر نکلے۔ اِس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے 100,000 فوجی اور بہت سارے عام شہریوں کا ہنگنام کی بندرگارہ کے ذریعے انخلا ممکن ہوا۔
‘ میریڈتھ وکٹری’ پر ایک اندازے کے مطابق 14,000 افراد سوار ہوئے۔ 23 دسمبرکی صبح یہ جہاز چُپکے سے موجودہ دور کے شمالی کوریا کے علاقے کی بندرگارہ کی ایک گودی سے خطرناک بارودی سرنگوں سے بچتے بچاتے روانہ ہوا۔ (بحری سفر کی تاریخ میں کسی ایک جہاز کے ذریعے لوگوں کا یہ سب سے بڑا انخلا تھا۔)
اِس جہاز کے سامان رکھنے والے پانچ خانے اور عرشہ لوگوں سے بھر گئے۔ سمندر یخ بستہ تھا اور منجمد کردینے والی ہوائیں چل رہی تھیں۔ اس کے باوجود آج کے جنوبی کوریا میں واقع جیوجی جزیرے تک کے چار روزہ بحری سفر کے دوران، تمام کے تمام 14,000 افراد سلامت رہے۔ اس سفر کے دوران چار مسافروں کے ہاں بچوں کی پیدائشیں بھی ہوئیں۔
میریڈتھ وکٹری کو “معجزات کا جہاز” کہا جانے لگا۔
سفر کے دوران، 24 دسمبر کو امریکی سپاہیوں نے کرسمس کے تحفے کے طور پر، ہر ایک مسافر کو ٹافی کا ایک ایک ٹکڑا دیا۔ — اُن کے پاس یہی کچھ تھا۔
صدر مُون نے فوجیوں کو بتایا، “میرے خیال میں پوری کہانی ابھی تک نہیں سنائی گئی۔ اگرچہ یہ ایک چھوٹے سے قطرے کی مانند تھا مگر میں امریکی افواج کے اراکین کا اتنی دلی درد مندی کے ساتھ ایک تباہ کن جنگ کے عین بیچ میں، اتنے زیادہ پناہگزینوں کو کرسمس کے تحائف پیش کرنے پر ہمیشہ مشکور رہوں گا۔”

ہنگنام کے انخلا کے دو سال کے بعد مُون، جیوجی کے اُس جزیرے پر پیدا ہوئے جہاں “معجزات کا جہاز” لنگر انداز ہوا تھا۔ صدر مُون کہتے ہیں کہ امریکہ اور جنوبی کوریا کے درمیان کبھی نہ ٹوٹنے والے بندھنوں کا آغاز، 1950 کی لوگوں کو بچانے کی دلیرانہ مہم سے ہوا تھا۔
مُون نے یہ کلمات ریاست ورجینیا میں کوانٹیکو کے مقام پر واقع میرین کور کے میوزیم میں جنگجِن (چوسین) جھیل کی یادگار پر ادا کیے۔

انہوں نے کہا، “کوریا اور امریکہ کا اتحاد ایسے طریقے سے وجود میں آیا۔ یہ اتحاد کاغذ کے اوراق پر دستخط کرنے سے وجود میں نہیں آیا۔ جیسا کہ میری زندگی میں ہے، یہ اتحاد ہمارے دونوں ممالک کے ہر ایک شہری کی زندگی سے قریبی طور پر جڑا ہوا ہے۔”