بحیرہ جنوبی چین کا شمار دنیا کے اہم ترین اقتصادی اور ماحولیاتی خطوں میں ہوتا ہے۔.
دنیا بھر کے نصف سے زیادہ ماہی گیر جہاز بحیرہ جنوبی چین میں مچھلیاں پکڑتے ہیں اور لاکھوں افراد کی خوراک اور روزگار اس سمندر کے پانیوں سے وابستہ ہے۔
مگر بحیرہ جنوبی چین میں خطرناک حد تک زیادہ تعداد میں مچھلیاں پکڑی گئی ہیں۔ 1950 کی دہائی سے لے کر اب تک مچھلیوں کے ذخیرے 70 سے 95 فیصد تک کم ہو چکے ہیں۔ تزویراتی اور بین الاقوامی مطالعاتی مرکز کی ایک رپورٹ کے مطابق سمندری حیات کے لیے انتہائی اہم مونگوں کی چٹانیں، ہر دہائی میں 16 فیصد کی شرح سے کم ہوتی چلی آ رہی ہیں۔
یہ خطہ ایک درجن سے زائد ایسے مشترکہ یا ایک دوسرے سے جڑے تنازعات کا شکار ہے جن کا تعلق اس بات سے ہے کہ بحیرہ جنوبی چین کے پانیوں کے طول و عرض پر پھیلے مختلف جزائر، چٹانوں، کم گہرے پانی والے علاقوں اور مونگوں کی چٹانوں پر کس کو اختیار حاصل ہے۔
مثال کے طور پر سپارٹلی کے جزائر پر چین، تائیوان، اور ویت نام مکمل طور پر دعوٰی کرتے ہیں جبکہ برونائی، فلپائن، اور ملائشیا جزوی طور پر دعوٰی رکھتے ہیں۔ ماسوائے برونائی کے، مذکورہ تمام ممالک کا اِن جزائر میں سے کچھ پر قبضہ ہے۔
بین الاقوامی قانون کی اہمیت
اس طرح کے پیچیدہ ماحول میں بین الاقوامی قانون کے مسلمہ، اور واضح ضوابط کا ہونا اہم ہوتا ہے۔ اسی لیے امریکہ [خطے کے] ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ سمندری علاقوں پر اپنے دعووں کو بین الاقوامی قانون کے مطابق پرامن طریقے سے حل کریں۔ 1982ء کا سمندر کے قانون پر کنونشن ایک ایسا بین الاقوامی معاہدہ ہے جس میں اہم سمندری ضوابط طے کر دیئے گئے ہیں۔
بدقسمتی سے بعض ممالک موجودہ بین الاقوامی قانون کی پاسداری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مثال کے طور پر چین بحیرہ جنوبی چین کے ایک بڑے اکثریتی علاقے پر اپنا حق جتاتا ہے جو کہ بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔
تین سال قبل ایک ثالثی ٹربیونل فیصلہ دے چکا ہے کہ چین کا بحیرہ جنوبی چین کے سمندری علاقے پر تاریخی دعوٰی سمندر کے قانون کے کنونشن سے مطابقت نہیں رکھتا۔

امریکہ چین کے بحیرہ جنوبی چین کے سمندری علاقوں کے دعووں پر باضابطہ طور پر اعتراض اٹھا چکا ہے۔
گزشتہ برس مشرقی ایشیا کی سربراہی کانفرنس میں نائب صدر پینس نے کہا، ” چین کی بحیرہ جنوبی چین میں عسکریت سازی اور علاقائی توسیع پسندی غیر قانونی اور خطرناک ہیں۔ اس سے بہت سے ممالک کی سالمیت اور دنیا کی خوشحالی خطرے میں پڑ گئی ہے۔” چین یہاں کے پانیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسرے ممالک کے جہازوں کو ہراساں کرنے اور انہیں کلیدی علاقوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے، چین کی سمندری ملیشیا میں شامل مچھلیاں پکڑنے والے جہازوں، کوسٹ گارڈ کے جہازوں، اور بحریہ کے جہازوں کو استعمال کرتا ہے۔
تزویراتی اور بین الاقوامی مرکز کے مطابق سیٹلائٹ سے لی گئی حالیہ تصاویر کے تجزیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ چینی ماہی گیر بیڑے “بجائے اس کے کہ تجارتی بنیادوں پر مچھلیاں پکڑیں، وہ حکومت کے لیے نیم فوجی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔”
پینس نے کہا، “امریکہ قانون کی سربلندی کی خاطر، جس کے فروغ میں ہم نے مدد کی، اپنے شراکت کاروں اور اتحادیوں کے ساتھ بدستور کھڑا رہے گا۔ ہم سمندروں اور آسمانوں کی آزادی کا دفاع کریں گے۔”