ایوانیر دوس سانتوس ایک طویل عرصے سے اقلیتوں کی پر زور حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ کئی عشرے پہلے انہوں نے “متحد پسماندہ آبادیوں کا ایک مرکز” کھولا۔ یہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو اقلیتوں کی حمایت کرتی ہے اور امتیازی سلوک کے خلاف جد و جہد کرتی ہے۔
مگر جب دوس سانتوس نے برازیل میں میں مفاہمت بڑہانے کی اپنی کوششوں پر امریکہ کے محکمہ خارجہ کا 2019 کا بین الاقوامی مذہبی آزادی کا ایوارڈ حاصل کیا تو اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اُن کے کام کو ایک نئی شہرت ملی اور ایک نیا اثرورسوخ مل گیا ہے۔
دوس سانتوس افریقی پس منظر کے حامل “کینڈومبلے” نامی مذہب کے عالم ہیں۔ صدیوں پہلے یہ مذہب غلاموں کے ذریعے برازیل آیا۔ گو کہ کینڈومبلے کو سرکاری طور پر ایک مذہب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے مگر اس کے ماننے والوں کو اپنے عقائد کی وجہ سے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ (برازیل بنیادی طور پر ایک عیسائی ملک ہے۔ پیو ریسرچ سنٹر کے مطابق کینڈومبلے اور امبانڈا جیسے مذاہب کے ماننے والے ملک کی مجموعی آبادی کا پانچ فیصد ہیں۔)
دوس سانتوس کا کہنا ہے کہ تبدیلی ایک طویل عمل ہے۔ “اس ایوارڈ نے مجھے معاشرے کے ان مختلف طبقات سے مستقل مکالمہ شروع کرنے کا موقع دیا ہے جن کو اب سمجھ آ گئی ہے کہ ہمارا کام کتنا سنجیدہ ہے۔”

عدم برداشت کو ختم کرنا
دوس سانتوس ایک عالم ہیں اور وہ مذہبی عدم برداشت کو ختم کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں۔ وہ ‘مذہبی عدم برداشت اور نسل پرستی کے خلاف گائیڈ‘ (2008) کے شریک مصنف ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ‘برازیل میں مذہبی عدم برداشت’ کی 2017ء کی رپورٹ کے لیے لکھا۔
دوس سانتوس اقلیتی مذاہب پر ہونے والے حملوں کی برازیلی حکومت کی طرف سے زیادہ موثر طریقے سے تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “(اِن حملوں کا) شکار ہونے والوں کو ابھی تک دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور ان کو اپنی عبادت کی جگہوں کو چھوڑنا پڑ رہا ہے۔”

(نسلی) امتیاز کو ختم کرنے کے لیے دوس سانتوس بین المذاہب مکالمے کی مسلسل حمایت کرتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے 2008 میں مذہبی عدم برداشت کو ختم کرنے کے لیے کمشن کی بنیاد رکھی۔
اُس سال انہوں نے ریو ڈی جنیرو میں مذہبی آزادی کے دفاع میں پہلی واک کا انتظام کیا۔ اسلام، یہودیت، عیسائییت اور بدھ مت سمیت اس سالانہ واک میں لگ بھگ 50,000 افراد نے شرکت کی۔
