

برما میں یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد، فوج نے برمی عوام کے انٹرنیٹ تک رسائی کے حق پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کی غرض سے جاری رکھا جانے والا یہ جبر معلومات تک رسائی اور قوم کی معیشت دونوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
فوجی بغاوت کے دوران، فوج نے انٹر نیٹ بند کر دیا۔ نیٹ ورکوں کی کڑی بندشیں ابھی تک جاری ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق، بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والوں اور موبائل سروس فراہم کرنے والوں سمیت اِن بندشوں نے کئی ایک نیٹ ورکس کو متاثر کیا ہے۔
اخباری نامہ نگار خبریں نہیں پوسٹ کر سکتے، خاندان اپنے آپ کو کووڈ-19 سے بچانے کے لیے درکار ضروری معلومات تک رسائی نہیں حاصل کر سکتے، اور کاروباروں کو، بالخصوص آن لائن کاروبار کرنے والے ہزاروں تاجروں کا نقصان ہو رہا ہے۔
رنگون میں ایک کاروباری نظامت کار نے میڈیا کے ریسٹ آف ورلڈ نامی ایک غیرمنفعتی ادارے کو بتایا، “جب سے انہوں نے موبائل انٹرنیٹ کو بند کرنا شروع کیا ہے تو پوری ڈیجیٹل معیشت ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔” میڈیا کے اس ادارے نے بتایا کہ نیٹ ورک کی حکومتی بندشوں نے انٹرنیٹ کے ہزاروں چھوٹے کاروباروں کو “برباد کر کے رکھ دیا ہے۔”
نیٹ بلاکس ایک غیرسرکاری تنظیم ہے جو انٹرنیٹ تک رسائی پر نظر رکھتی ہے۔ نیٹ بلاکس کے مطابق اِن بندشوں سے برما کی معیشت کو روزانہ اندازاً 24 ملین ڈالر سے زائد کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔
امریکہ اور شراکت دار ممالک جمہوریت کی بحالی اور پرامن مظاہرین کے خلاف فوج کے تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بغاوت کے بعد سے برما کی فوج جمہوری طور پر منتخب ہونے والے عہدیداروں، سرگرم کارکنوں اور صحافیوں سمیت 700 سے زائد مظاہرین کو ہلاک کر چکی ہے اور ہزاروں افراد کو حراست میں لے چکی ہے۔
معلومات تک رسائی انسانی حقوق کے آفاقی اعلامیے میں رقم ایک بنیادی حق ہے۔ فریڈم ہاؤس نے انٹرنیٹ کی بندش کو ایک ایسا سفاک ہتھیار قرار دیا ہے جس کے معاشرے پر “ناقابل یقین حد تک تباہ کن اثرات” مرتب ہو سکتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے حال ہی میں حکومت کی طرف سے لگائی جانے والی انٹرنیٹ کی اُن بندشوں اور دیگر ہتھکنڈوں کی مذمت کی جو آن لائن اظہار رائے کی آزادی کو روکتے ہیں۔
برمی فوج کی انٹرنیٹ کی بندشوں نے محض خبروں اور سوشل میڈیا کی سائٹوں میں ہی رکاوٹیں نہیں کھڑی کیں۔ انٹر نیٹ کی سنسرشپ کی مخالفت کرنے والی “اوپن آبزرویٹری آف نیٹ ورک انٹر فیئرنس” نامی تنظیم کے مطابق اِن بندشوں نے ایک ایسی موبائل اپلی کیشن کو بھی روک دیا ہے جس کے ذریعے صارفین کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور متاثرہ علاقوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے تھے۔
روائٹر کے مطابق اس جبر سے متاثر ہونے والے برمی کاروباروں کا سلسلہ آن لائن جانکاری حاصل کرنے والے کسانوں سے لے کر اُن قومی صنعتوں تک پھیلا ہوا ہے جو اپنے کام کرنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہیں۔
“فری ایکسپریشن میانمار” کے آلیور سپنسر نے بتایا کہ فوج کی نیٹ ورک کی بندشوں سے سب کا نقصان ہو رہا ہے۔ انہوں نے وائرڈ میگزین نامی رسالے کو بتایا، “انٹرنیٹ کی بندش کا مطلب ان کے کلی اقتدار کا محض ایک عملی مظاہرہ ہے۔ اور یہ خود کا بہت بڑا نقصان ہے۔”
انجام کار، اس نقصان میں برما کے 54 ملین شہری شامل ہیں جن کی اکثریت معلومات کے لیے وائرلیس انٹرنیٹ پر انحصار کرتی ہے۔ دا سنٹر فار انٹرنیشنل گورننس انو ویشن کا کہنا ہے، “احتجاج بڑھتا جا رہا ہے۔ اس بندش کا مقصد لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا اور لوگوں کو آپس میں رابطہ کرنے، مظاہرے منظم کرنے یا انتہائی اہم معلومات تک رسائی حاصل کرنے سے روکنا ہے۔”