
ایک سال قبل برما کی فوج نے ملک کی جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کا تختہ الٹا اور ایک ایسی سفاک حکومت قائم کی جو ایک ہزار سویلین شہریوں کو ہلاک کر چکی ہے۔
یکم فروری 2021 کی بغاوت کے بعد سے امریکہ اور اس کے بین الاقوامی شراکت داروں نے برما کی فوجی حکومت کی کاروائیوں کے ردعمل میں احتساب کو فروغ دیا ہے اور بغاوت مخالفین پر اور احتجاجی مظاہرین کے خلاف تشدد کے ذمہ دار فوجی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں ہیں۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 3 جنوری کو برما کے 4 جنوری کو پڑنے والے یوم آزادی سے پہلے کہا، “امریکہ برما کے عوام کی بدستور حمایت کرتا رہے گا جنہوں ن حکومت کی طرف سے ہولناک زیادتیوں کے باوجود، بہتر مستقبل کی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔”
امریکہ نے 10 دسمبر کو کینیڈا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے سلسلے میں فوجی حکومت کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کیں۔ جن عہدیداروں پر پابندیاں لگائی گئیں ہیں اُن میں باگو کے علاقے کے وزیر اعلیٰ میو سوی ون بھی شامل ہیں جہاں مسلح افواج نے 9 اپریل کو کم از کم 82 افراد کو ہلاک کیا تھا۔
امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق برما کی وزارت دفاع کے اُن دفاتر پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں جو برمی فوج اور پولیس کے لیے ہتھیار بناتے ہیں اور انہیں گولیاں اور گولہ بارود فراہم کرتے ہیں جن سے سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

آزاد مبصرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ 8 نومبر 2020 کو برما میں ہونے والے سویلین حکومت کے انتخابات “رائے دہندگان کی رائے کی حقیقی” عکاسی کرتے ہیں۔
برما میں سیاسی قیدیوں کی اعانتی ایسوسی ایشن کے مطابق، یکم فروری 2021 کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد برما کی فوجی حکومت 1,484 افراد کو ہلاک اور 11,638 کو گرفتار کر چکی ہے۔
امریکہ برما کو جمہوریت کی راہ پر واپس لانے کے لیے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے پانچ نکاتی اتفاق رائے سے منظور کیے جانے والے فارمولے کی حمایت کرتا ہے۔ یہ اعلامیہ حقوق کی خلاف ورزیوں پر جوابدہی کو فروغ دینے کی خاطر میانمار کے لیے اقوام متحدہ کے آزاد تحقیقاتی طریقہ کار کی بھی حمایت کرتا ہے۔ اِن تحقیقات میں 24 دسمبر 2021 کو کایاہ اور کیرن ریاستوں میں فوج کے ہاتھوں کم از کم 35 بے گناہ افراد کا قتل عام بھی شامل ہے۔
فوجی بغاوت کے بعد امریکہ اور بین الاقوامی شراکت داروں نے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے ہیں:-
- ہجوموں پر فائرنگ اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سمیت بغاوت اور پرامن مظاہرین پر حملوں کے ذمہ دار فوجی عہدیداروں پر پابندیاں لگائیں۔
- برما کی فوج پر زور دیا کہ وہ صحافیوں، جمہوریت کے حامیوں، اور سابق سویلین حکومت کے عہدیداروں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین سمیت اُن تمام افراد کو رہا کرے جنہیں ناجائز طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔
- اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران برما کے جمہوریت نواز این یو جی (یعنی جلاوطن برمی رہنما)، سول سوسائٹی اور جمہوریت کے دیگر فریقین سمیت برما میں جمہوریت کے لیے امریکی حمایت پر زور دیا۔
- حکومت کی طرف سے مسلط کردہ انٹرنیٹ کی اُن بندشوں اور دیگر ہتھکنڈوں کی مذمت کی جو آن لائن اظہارِ رائے کی آزادی کو روکتے ہیں۔
6 دسمبر 2021 کے ایک بیان میں، بلنکن نے برما کی معزول رہنما، آنگ سان سوچی کی غیرقانونی سزا اور جمہوری طور پرمنتخب دیگرعہدیداروں پر کیے جانے والے ظلم وجبر کو “جمہوریت اور انصاف کی توہین” قرار دیتے ہوئے مذمت کی اور برما کی جمہوریت کے راستے پر واپسی کا مطالبہ کیا۔
بلنکن نے کہا، “ہم برما کے عوام کے ساتھ اُن کی آزادی اور جمہوریت کی خواہشات میں شریک ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ تشدد کے استعمال کو ختم کرے، عوام کی رائے کا احترام کرے، اور برما کے جمہوری انتقالِ اقتدارکو بحال کرے۔”