
برما میں فوجی بغاوت کے ایک سال مکمل ہونے کے موقعے پر صدر بائیڈن نے فوجی حکومت کے شہریوں کے خلاف تشدد کی مذمت کی اور ملک میں جمہوریت کا مطالبہ کیا۔
بائیڈن نے 31 جنوری کو ایک بیان میں کہا، “بغاوت نے برما کے طول و عرض میں بے پناہ مصائب کھڑے کر دیئے ہیں اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچایا ہے جبکہ فوجی حکومت کے رہنما اور اُن کے حامی اُس افراتفری سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کر رہے ہیں جو انہوں نے پیدا کی ہے۔ برمی عوام کے نام: ہم آپ کی جدوجہد کو نہیں بھولے۔ ہم ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی لانے کے لیے آپ کے جرائتمندانہ عزم مصمم کی بدستور حمایت کرتے رہیں گے۔”
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، یکم فروری 2021 کی بغاوت کے بعد سے فوجی حکومت خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 1,500 افراد کو ہلاک اور 10,000 کے قریب افراد کو حراست میں لے چکی ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ امریکہ بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر بغاوت اور برمی عوام کے خلاف تشدد ڈھانے کے ذمہ داروں کے احتساب کو آگے بڑہانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
On the one-year anniversary of the coup, we are imposing sanctions in coordination with the UK and Canada on additional Burmese regime individuals, a defense entity, and cronies who materially support the regime. We’ll continue pressing to restore Burma’s democratic transition.
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) January 31, 2022
صدر کے بیان کے ساتھ ساتھ امریکہ نے کینیڈا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر، فوجی حکومت کے عہدیداروں اور کاروباری اداروں اور حکومت کے حمائتی افراد پر نئی پابندیاں لگائیں۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 31 جنوری کو کہا، “ہم برما کے لوگوں کے لیے بین الاقوامی برادری کی مضبوط حمایت کا عملی مظاہرہ کرنے اور بغاوت کرنے والوں اور حکومت کی طرف سے روا رکھے جانے والے تشدد کی جوابدہی کو مزید بڑہاوا دینے کی خاطر برطانیہ اور کینیڈا کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔”
جن اداروں اور افراد پرپابندیاں لگائیں گئی ہیں اُن میں ڈیفنس سروسز کے کمانڈر انچیف کا خریداری کا ڈائریکٹوریٹ، ایسے ممتاز کاروباری رہنما اور عہدیدار شامل ہیں جو قانون کی حکمرانی اور برما کے جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی حکومتی کوششوں سے منسلک ہیں۔
31 جنوری کو بلنکن، آٹھ دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ اور یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے نے فوجی حکومت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے جنسی تشدد سمیت ایذا رسانی اور صنفی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد کا حوالہ دیا اور خاص طور پر کہا کہ بغاوت کے بعد سے چار لاکھ سے زائد افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
وزرا نے اِس مشترکہ بیان میں کہا، “ہم بین الاقوامی برادری کے تمام اراکین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ میانمار کے لوگوں کے لیے انصاف کو فروغ دینے کی کوششوں کی حمایت کریں؛ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرائیں۔”
اس اجلاس میں البانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، ناروے، جنوبی کوریا، سوئٹزرلینڈ، برطانیہ اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے علاوہ یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے نے بھی شرکت کی۔