امریکہ اور بین الاقوامی شراکت دار برما کی فوجی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے مظالم کے جواب میں انصاف اور جوابدہی کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جمہوریت کے پرزور حامیوں کی مدد اور انسانی بنیادوں پر ضروری امداد بھی فراہم کر رہے ہیں۔
برمی فوج کی طرف سے یکم فروری 2021 کو برما کی جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے اب تک امریکہ نے حکومت سے وابستہ 74 افراد اور 29 اداروں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ اِن پابندیوں کا نشانہ اُن کو بنایا گیا ہے جو حکومت کے تشدد کے احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اس میں مدد کرتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے بغاوت کا ایک سال مکمل ہونے پر کہا کہ “جب تک حکومت برما کے عوام اور اُن کی آواز کو دباتی رہے گی ہم اُس وقت تک فوج اور اس کے حامیوں پر مزید تعزیریں عائد کرتے رہیں گے۔”
23 دسمبر 2022 کو بائیڈن نے فوج کے کڑے احستاب کے ذریعے برما کے اتحاد کے قانون پر دستخط کیے جس کے ذریعے مزید پابندیوں اور جمہوریت نواز تحریک کے لیے اضافی امداد کی اجازت دی گئی ہے۔

برما کی فوجی حکومت برمی عوام کے خلاف تشدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ حکومت بغاوت کے بعد سے اب تک 2,400 سے زائد افراد کو ہلاک اور 16,000 سے زائد افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔ اس میں تشدد کے مندرجہ ذیل واقعات بھی شامل ہیں:-
- جولائی 2022 میں جمہوریت نواز سرگرم کارکنوں، فائیو زیا تھا، کو جِمی، ہلا مائیو آنگ اور آنگ تھورا زا کو پھانسی دی گئی۔
- ریاست کاچین میں 23 اکتوبر 2022 کو فضا سے کی جانے والی بمباری میں نسلی برادری کے ایک اجتماع میں 100 کے قریب افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔
- 16 ستمبر 2022 کو ایک سکول پر کیے جانے والے ہیلی کاپٹر حملے میں 11 بچے ہلاک ہوئے۔
- فوجی بغاوت کے بعد کے مہینوں میں صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد میں اضافہ ہوا اور 1,000 سے زائد عورتوں کو گرفتار کیا گیا۔ اِن میں سے بہت سوں کو شدید زیادتیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

اقوام متحدہ کے میانمار [برما] کے آزاد تحقیقاتی طریقہ کار کے تحت برما میں بین الاقوامی قوانین کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے تحقیقات میں مدد اور متاثرین اور گواہوں کے تحفظ کے لیے 2 ملین ڈالر فراہم کیے ہیں۔
2021 کی بغاوت میں حصہ لینے والے بہت سے برمی فوجی اہلکار 2016 اور 2017 میں روہنگیا اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد پر فوج کی طرف سے بار بار کیے جانے والے حملوں کے بھی ذمہ دار ہیں۔ امریکہ روہنگیا کے پر کیے جانے والے برمی فوج کے مظالم کو انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی قرار دیتا ہے اور برما کے خلاف گیمبیا کے مقدمے کی حمایت کرتا ہے۔ یہ مقدمہ روہنگیا لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے سلسلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں دائر کیا گیا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے برما کی صورت حال کو فوجداری کی بین الاقوامی عدالت میں بھیجنے کی حمایت کرے گا۔
ity against Rohingya. We honor the victims of these atrocities, and reiterate our commitment to advancing peace, accountability, and inclusive democracy for a prosperous future Burma.
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) August 25, 2022
ٹوئٹر
وزیر خارجہ بلنکن
آج برمی فوج کی طرف سے روہنگیا لوگوں کے خلاف نسل کشی اور انسانیت کے خلاف کیے جانے والے جرائم کو پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ ہم ان مظالم کا شکار ہونے والوں کی تکریم کرتے ہیں اور برما کے خوشحال مستقبل کے لیے امن، احتساب، اور مشمولہ جمہوریت کے فروغ کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔
امریکہ بین الاقوامی شراکت داروں کی طرف سے کیے جانے والے برما میں احتساب کے مطالبات کی بھی حمایت کرتا ہے۔ 21 دسمبر 2022 کی ایک قرارداد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے برما کی فوجی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ تشدد کو ختم کرے، من مانے طور پر حراست میں لیے گئے تمام قیدیوں کو رہا کرے، اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تحفظ دے اور انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دے۔
بغاوت کے بعد انسانی بنیادوں پر امریکہ 50 ملین ڈالر سے زائد مالیت کی امداد فراہم کر چکا ہے جس سے برما میں تشدد سے بھاگنے والوں کو اُن کی جانیں بچانے والا تحفظ اور صحت کی بنیادی سہولتیں اور کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی گئیں۔ روہنگیا کے خلاف کیے جانے والے تشدد سے بھاگنے والوں کی مدد کے لیے 2017 کے بعد سے امریکہ نے برما، بنگلہ دیش اور دیگر مقامات پر 1.7 ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی ہے۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 4 جنوری کو پڑنے والے برما کے قومی دن کے موقع پر 3 جنوری 2022 کو کہا کہ
“امریکہ ایک طویل عرصے سے برما کے عوام کی اور اِن کے اپنے مستقبل کی راہ کا تعین کرنے کی صلاحیت کی حمایت کرتا چلا آ رہا ہے۔ برمی عوام اپنے ملک میں جمہوریت لانے کا عزم مصمم کیے ہوئے ہیں اور ہم اُن کے اساتھ یکجہتی کے طور پر کھڑے ہیں۔”