برما کا جمہوریت کی راہ پر چلنا

سماجی فاصلہ برقرار رکھے ہوئے قطار میں کھڑے لوگ ووٹ دینے کا انتظار کر رہے ہیں۔ (© Pyae Sone Win/AP Images)
8 نومبر 2020 کو برمی ووٹر رنگون میں پولنگ سٹیشن کے باہر ووٹ دینے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ (© Pyae Sone Win/AP Images)

8 نومبر 2020 کو برما کے عوام نے نئی حکومت کے انتخاب کے لیے کثیر الجماعتی انتخابات کرائے۔ پھر برمی فوج نے یکم فروری کی بغاوت کے ذریعے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیاں شروع کردیں۔

برما کے انتخابات کے ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے برما کے عوام کے لیے امریکی حمایت کا اعادہ کیا ہے اور فوجی حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔

بلنکن نے 7 نومبر کو جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا، “ہم برما کے عوام کو اپنے ملک میں جمہوریت، انسانی حقوق کے احترام اور اپنے ملک میں قانون کی حکمرانی کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ فوج  کی “جاری پرتشدد کاروائیوں نے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو مزید کمزور کر دیا ہے اور اُس حقیقی جمہوریت کی جانب کی جانے والی پیشرفت کو ختم کر دیا ہے جس کی برما کے عوام واضح طور پر کوشش کر رہے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ہم فوجی حکومت سے فوری طور پر تشدد بند کرنے، غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے تمام افراد کو رہا کرنے، اور برما کے حقیقی اور جامع جمہوریت کی راہ پر لوٹ جانے کے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں۔”

آزاد مبصرین برما کے 8 نومبر 2020 کے انتخابات کی مثبت ساکھ کی تائید کر چکے ہیں۔ بنکاک میں قائم آزادانہ انتخابات کے ایشیائی نیٹ ورک نے انتخابات کے دوران مبصرین تعینات کیے جنہوں نے تصدیق کی کہ “انتخابات کے نتائج ووٹروں کی حقیقی رائے کی عکاسی کرتے ہیں۔”

 ایک آدمی نے بیلٹ پیپر اٹھا رکھا ہے۔ (© Aung Shine Oo/AP Images)
یونین الیکشن کمیشن کا ایک اہلکار 8 نومبر 2020 کو برما کے شہر نپیٹا میں ایک پولنگ سٹیشن میں بیلٹ پیپر دکھا رہا ہے۔ (© Aung Shine Oo/AP Images)

اسی طرح اٹلانٹا میں امن اور جمہوریت کے فروغ کے لیے قائم غیرمنفعتی ادارے، کارٹر سینٹر نے ” یہ پتہ چلایا ہے کہ ووٹزوں کو آزادانہ طور پر انتخابات میں اپنی رائے کا اظہار کرنے اور اپنے منتخب نمائندوں کو منتخب کرنے کی آزادی تھی۔”

بغاوت کے بعد سے فوجی حکومت کے زیرنگرانی مظاہروں اور بنیادی آزادیوں کے خلاف پرتشدد کاروائیاں کی گئی ہیں جن میں  بچوں سمیت 1,300 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکومت نے 9,900 سے زائد افراد کو حراست میں بھی لیا ہے جو اس حکومت کی بین الاقوامی مذمت کا باعث بنا ہے۔

امریکہ برما میں تشدد کو ختم کرنے اور ملک کو جمہوریت کی راہ پر واپس ڈالنے کے لیے حکومت سے مطالبہ کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ 23 ستمبر کو اقوام متحدہ میں بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ ملاقاتوں میں بلنکن اور دیگر امریکی حکام نے برما کی فوجی حکومت پر اس کی پرتشدد حکمرانی کے خاتمے کے لیے دباؤ ڈالنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

صدر بائیڈن نے 26 اکتوبر کو جنوب مشرقی ممالک کی تنظیم (آسیان) کے سربراہی اجلاس کے دوران برما میں جمہوریت کی واپسی پر زور دیا اور فوجی حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے آسیان کی کوششوں کو سراہا۔

25 اکتوبر کو امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر، جیک سلیون نے برما کے مخففا این یو جی کہلانے والے جمہوریت نوازگروپ  کے نمائندوں سے ملاقات کی اور “برما میں جمہوریت نواز تحریک کے لیے امریکی حمایت کی مسلسل حمایت کو اجاگر کیا۔”

بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے امریکہ نے تشدد کے ذمہ دار برمی فوجی حکام کے ساتھ ساتھ اُن کمپنیوں پربھی  پابندیاں عائد کی ہیں جو اُن کی حمایت کر تی ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اُن ممالک میں بھی شامل ہے جو برما کی فوج پر صحافیوں سمیت غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے تمام افراد کو رہا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

اکتوبر 2020 اور ستمبر 2021 کے درمیان امریکہ نے برما کے عوام کے لیے 434 ملین ڈالر سے زائد کی انسانی امداد (پی ڈی ایف 404 کے بی) فراہم کی ہے۔ اس امداد میں ظلم و ستم اور تشدد سے بھاگنے پر مجبور ہونے والے افراد کے ساتھ ساتھ وہ کمیونیٹیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے اِن لوگوں کو پناہ دے رکھی ہے۔