آبھی نانگیا نکارا گوا کی عورتوں کو زیورات فروخت کرنے میں مدد دینے پر ویڈیو بنا رہے ہیں (Courtesy photo)

نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے ایک انڈر گریجویٹ کی حیثیت سے آبھی نانگیا نے نکاراگوا میں ری سائیکل [دوبارہ قابل استعمال بنائےگئے]  کچرے سے  تیارکردہ زیورات کو  فروخت کرنے میں عورتوں کی مدد کرتے ہوئے مارکیٹنگ سیکھی۔ اُنہوں نے جنوبی امریکہ میں ایک چھوٹی سی کیٹرنگ [کھانا مہیا کرنے والی] کمپنی کو مشورے دیتے ہوئے مالیات کا مطالعہ کیا ۔انہوں نے انڈونیشیا میں مالی مشکلات سے دوچار آرٹسٹوں کو منظم کرتے ہوئے قیادت کا تجربہ حاصل کیا۔

بیوسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد، نانگیا نے ان مہارتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جو انہوں نے اپنے سوشل انٹر پرائیز انسٹی ٹیوٹ میں حاصل کی تھیں، Reweave نامی وہ نیٹ ورک شروع کیا جس کو استعمال میں لاتے ہوئے “خوبصورت چیزیں  بنانے والے لوگ منڈی تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔”

ہوسکتا ہے کہ یہ آپ کو روایتی انڈر گریجویٹ  بزنس سکول کے تجربے جیسا نہ لگے، لیکن آج امریکہ میں انہی اختراعی طریقوں سے بزنس کے طالبعلموں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ تجربہ اُن خصوصیات کو یکجا کرتا ہے جنہیں روز افزوں پروگراموں میں پڑھایا جاتا ہے: یعنی درس و تدریس کا مطلب ہاتھ  سے کام کرنا، کاروباری نظامت کاری، اور عالمگیریت ہے۔

نانگیا نے کہا،” سوشل انٹر پرائیز انسٹی ٹیوٹ غالباً اب تک کا میرا بہترین تجربہ ہے۔” اُن کے والدین کا تعلق نئی دہلی سے ہے اور وہ خود بفیلو، نیو یارک میں پلے بڑھے ہیں۔ نارتھ ایسٹرن، امریکہ کی ان سرکردہ یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جو کمرہ جماعت میں تعلیم کے ساتھ ساتھ انٹرن شپ [عملی تربیت] اورحقیقی کاموں کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اس تجربے سے نانگیا کو یقین ہو گیا ہے کہ بین الاقوامی کاروبار کا مطلب پیسہ کمانے سے کہیں بڑھکر ہے: یعنی  اس سے درحقیقت  دوسرے ممالک میں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ بزنس کے  انڈر گریجویٹ  طلبا جوروایتی طور پر اکاؤنٹنگ اور مالیات پرتوجہ دیتے رہے ہیں، وہ صحت کی دیکھ بھال اور  دیر پا ترقیات  جیسے شعبوں میں بھی مہارتیں حاصل کرسکتے ہیں۔

اُن طلبا کے لیے جو گوگل اِنک یا آن لائن خوردہ فروش ایمیزون ڈاٹ  کام اِنک  جیسی انتہائی ترقی یافتہ اوربہت  بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں امریکہ کے بعض بزنس سکول مخصوص ٹیکنالوجیوں میں ڈگریاں دیتے ہیں۔ کارنیگی میلن یونیورسٹی کے ٹیپر سکول آف بزنس کے طلبا بِگ ڈیٹا جیسے مضامین پڑھ سکتے ہیں — یہ ڈیٹا سیٹ  اس قدر پیچیدہ ہیں کہ روایتی سافٹ ویئرکے ذریعے انہیں سنبھالنا مشکل ہے۔

23 سالہ رونی ھو  چینی نژاد امریکی ہیں جو نیو یارک میں پلی بڑھی ہیں۔ ان کے والدین کا تعلق شنگھائی اور تائیوان سے ہے۔ انہوں نے پِٹس برگ میں کارنیگی میلن یونیورسٹی سے گریجویشن کی اورنیو یارک میں مالیاتی کمپنی سٹی گروپ انک میں اِنٹرن شپ کی۔ وہ  محسوس کرتی ہیں کہ کارنیگی میلن میں سائنس دانوں اور انجنیئروں کے ہمراہ  ٹیم کی شکل میں مختلف منصوبوں پر کام کرتے ہوئے گزارے ہوئے سارے وقت میں، انہوں نے محض اعدادو شمار  کی جمع تفریق ہی نہیں سیکھی بلکہ اس سے اُن کی صلاحیتوں میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا۔ اب وہ ان صلاحیتوں کو عملی زندگی میں بروئے کار لا رہی ہیں۔ باہمی اشتراک کے ان منصوبوں میں یونیورسٹی کے ہیومن کمپیوٹر انٹر ایکشن انسٹی ٹیوٹ میں مستقبل کے بارے میں وڈیو بنانا شامل تھا، جس میں طلبا فرضی دنیائیں تخلیق کرتے ہیں تا کہ اس بات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے کہ کمپیوٹر لوگوں کی روزمرہ کی زندگیوں میں کس طرح بہتری لا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا،”یہ بالکل  نیا شعبہ ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ آپ کیا کچھ کرسکتے ہیں اس میں شامل ہونا اور کام کرنا بہت دلچسپ بات ہے۔”

رونی ھو نے ہیومن کمپیوٹر انٹر ایکشن انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی۔ (Courtesy photo)

اے اے سی ایس بی انٹرنیشنل [ ایسوسی ایشن ٹُو ایڈوانس کالجیئیٹ سکولز آف بزنس]  کے صدرٹام رابنسن کا کہنا ہے، “حالیہ برسوں میں بزنس سکولوں نے انٹرن شپ میں توسیع کرنے اور ایسے  نصابوں پر توجہ مرکوز کی ہے، جو طلبا کو براہ راست کام کرتے ہوئے اسی قسم کی تعلیم دیتے ہیں جس  کا ھو اور نانگیا کو تجربہ ہوا ہے۔ کاروباری ادارے اب طلبا سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ عملی زندگی کے تجربے کے ساتھ  کام کا آغاز کریں۔ لہذا یہ جاننے کے لیے کہ طلبا کس طرح حقیقی زندگی کی ضروری مہارتیں حاصل کرسکتے ہیں، بزنس سکول اپنے طریقہ کار میں تبدیلیاں لارہے ہیں۔”

ایم بی اے  کا تیز رفتار راستہ

پِنچو ھو یونیورسٹی کا ایک ہاسٹل۔ Courtesy photo)

پنچوھو یونیورٹی میں، جو پہلے بین برج گریجویٹ سکول ہوا کرتا تھا، قدرتی ماحول کےشوقین افراد، بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کی ڈگریوں کے لیے ایک ایسے کمپس پر مطالعہ کرسکتے ہیں جو سی ایٹل کے ساحل سے پرے ایک جزیرے پر واقع ہے۔ اس کے کلاس روم 100 ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات میں گھرے ہوئے ہیں، جہاں طلبا یہ سیکھتے ہیں کہ قدرتی ماحول کو نقصان پہنچائے بغیر دیرپا ترقیات کے طریقوں سے کس طرح پیسہ کمایا جاسکتا ہے۔

اگر دنیا کے  سب سے زیادہ پرکشش کاروباری مراکز میں مطالعہ کرنے کا آپ کوشوق ہے تو نیویارک یونیورسٹی کا سٹرن بزنس سکول، وال اسٹریٹ سے صرف چند بلاک کے فاصلے پرواقع ہے۔ یہاں طلبا “سٹرن کنسلٹنگ کور”  کے ارکان کی حیثیت سے کم آمدنی والے علاقوں میں  دکانداروں کو مشورے  دے کر یا  کاروبار میں نووارد  فیشن ڈیزائینروں کے لیے کاروبار کے منصوبے تشکیل دیتے ہوئے، حقیقی کاروباری چیلنجوں کے حل ڈھونڈتے ہیں۔

امریکہ میں ایم بی اے کے بیشتر کل وقتی پروگراموں کو مکمل کرنے میں دو سال لگتے ہیں۔ کئی ادارے اب ایک سال کے زیادہ محنت طلب پروگرام بھی پیش کر رہے ہیں۔ عام طور پرایم بی کے  اعلیٰ پائے کے پروگراموں میں  داخلے کے لیے کئی برسوں کا عملی تجربہ درکار ہوتا ہے۔ اس لیےکوئی ایسا شخص جو کالج سے تازہ تازہ فارغ ہوا ہو یا جس کا عملی کام کا چند سال کا تجربہ ہو، وہ ایک سال کی تخصیصی ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے امکان پر غور کر سکتا ہے۔

کارنیل یونیوسٹی کا  جانسن گریجویٹ  سکول  آف مینجمینٹ ایک سال میں ایم بی اے کی ڈگری دیتا ہے۔ یہ پروگرام ان طلبا میں مقبول ہے جو دوہری تعلیمی قابلیت کے لیے طِب، انجنیئرنگ یا قانون کے ساتھ ساتھ  کسی اور پیشہ ورانہ شعبے میں  بھی ڈگری  حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں دوہری ڈگریوں کی مقبولیت بڑھتی جارہی ہے کیونکہ ان  کی بدولت روزگار کی مسابقتی منڈی میں  گریجویٹ افراد کو دوسروں پر سبقت حاصل ہو جاتی ہے۔

اے اے سی ایس بی کے مطابق 2009ء سے شمالی امریکہ میں  ایم بی اے یا ایم بی اے کے مساوی پروگراموں میں داخلوں میں 9.7  فیصد کمی آئی ہے جبکہ اسی عرصے میں ماسٹر کے تخصیصی پروگراموں میں داخلہ لینے والوں میں 37.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مقبول تخصیصی  پروگراموں میں مالیات، اکاؤنٹنگ ،مارکٹنگ اورڈیٹا کے تجزیات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی مینجمینٹ جیسے نسبتاً  نئے شعبے شامل ہیں۔

رابنسن کا کہنا ہے ،” داخلوں کے معاملے میں  ترجیحات میں ایک تبدیلی آئی ہے۔ جہاں تک نسبتاً کم عمر کے گریجویٹس کا تعلق ہے، ان میں بہت سے مارکیٹ میں قدرے مضبوطی سے قدم جمانے کے لیے کسی مخصوص شعبے میں ڈگری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد جب وہ انتظامی تجربہ حاصل کرلیتے ہیں اور اعلٰی عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں تو پھران کے  لیے  اپنے شعبے میں ترقی کی خاطر ایم بی اے کرنا زیادہ با معنی ہو جاتا ہے۔

اس بارے میں مزید جاننے کے لیے کہ   امریکہ میں حصول تعلیم سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح اٹھایا جائے، برائے مہربانی  Share America   سےرجوع کیجیےاور اپنی تعلیم کا آغاز کرنے کے لیے EducationUSA  ملاحظہ فرمائیے۔

 یہ مضمون فری لانس مصنفہ کیتھرائین مینگن نے تحریر کیا۔