بعد ازموت آئیڈا بی ویلز کے نام: پلٹزر پرائز

آئیڈا بی ویلز کی ایک تصویر۔ (© Chicago History Museum/Getty Images)
آئیڈا بی ویلز 1920ء میں۔ (© Chicago History Museum/Getty Images)

تحقیقاتی صحافی، آئیڈا بی ویلز اپنی جان پر کھیل کر 1890 کی دہائی کے اواخر میں ہجوموں کے ہاتھوں ہونے والی بے گناہ لوگوں کی ہولناک ہلاکتوں کو منظر عام پر لاتی رہیں۔ صحافیوں کی آنے والی نسلوں کو متاثتر کرنے والی اُن کی جاندار پورٹنگ کی وجہ سے 4 مئی کو خصوصی حوالے کے ساتھ اُنہیں بعد از موت پلٹزر پرائز سے نوازا گیا۔

پلٹزر پرائز کے بورڈ کے حوالے میں ویلز کا ذکر اِن الفاظ میں کیا گیا ہے: “ہجوموں کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کے دور میں افریقی نژاد امریکیوں کے خلاف کیے جانے والے ہولناک اور شیطانی تشدد کی شاندار اور جرائتمندانہ رپورٹنگ” پر- اس انعام میں ویلز کے مشن کی ترویج کے لیے پچاس ہزار ڈالر کا ترکہ بھی شامل ہے۔ اس ترکے کو حاصل کرنے والوں کا بعد میں اعلان کیا جائے گا۔

بورڈ نے اس اعزاز کا اعلان پریس کی آزادی کے عالمی دن کے ایک روز بعد کیا۔ ویلز کا ورثہ، بہت سوں پر پریس کی آزادی کے معانی آشکار کرتا ہے۔

انہوں نے اپنے نسلی گروپ کے خلاف مظالم کے بارے میں بہادری سے ایسے وقت میں رپورٹنگ کی جب خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی حاصل نہیں تھا۔ ان کی تحقیقات میں جن کی غلامی کے خاتمے کے بعد اچھی طرح رپورٹنگ کی گئی، سفید ہجوموں کی جانب سے افریقی نژاد امریکیوں کو تشدد کے ذریعے قابو کرنے کی کوششوں کو بے نقاب کیا۔

ہجوموں کے ہاتھوں ہلاکتوں کے بارے میں "اے ریڈ ریکارڈ" کے عنوان سے آئیڈا بی ویلز کے پمفلٹ کی تصویر۔ (The Frederick Douglass Papers/Library of Congress)
امریکہ میں ہجوموں کے ہاتھوں ہلاکتوں کے بارے میں ویلز کی رپورٹ میں اعداد و شمار، تفصیلات اور تصاویر شامل ہیں۔ (The Frederick Douglass Papers/Library of Congress)

ویلز کی پڑپوتی مشیل ڈسٹر نے شکاگو ٹربیون کو بتایا، “در حقیقت اُن کے پاس سچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اور انہوں نے صحافت کو جو کچھ ہو رہا تھا اُس کو محض رپورٹ کرنے کے ایک ذریعے کے طور پر نہیں استعمال کیا بلکہ انہوں نے صحافی کی حیثیت سے اپنی مہارتوں کو اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق سماجی تبدیلی پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کیا۔”

مسس سپی میں 1862ء میں ایک غلام کے طور پر پیدا ہونے والی ویلز نے مستقبل کے سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کے لیے ایک تابناک راہ چھوڑی۔

انہوں نے میمفس، ٹینیسی میں جہاں وہ ‘ فری سپیچ اینڈ ہیڈ لائٹ‘ نامی اخبار کی شریک مالکہ، ایڈیٹر اور رپورٹر تھیں، ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتوں کے خلاف قومی جنگ کے شروع کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے عدالتوں سے ماورا قتلوں کی مذمت کرنے والے مضمون شائع کیے اور ہجوم کے ہاتھوں سینکڑوں ہلاکتوں کی تحقیقات کی خاطر (امریکہ کے ) پورے جنوب میں کئی ماہ تک اکیلے سفر کیا۔

جب لوگوں کے ایک ہجوم نے اُن کے اخبار کے دفاتر تباہ کیے تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ میمفس میں وہ دوبارہ کبھی قدم نہیں رکھیں گیں۔ اس کے بعد وہ شکاگو منتقل ہوگئیں اور اپنے دو پمفلٹوں میں انہوں نے موقعے پر کی جانے والی تحقیقات کے نتائج شائع کیے۔ 1892ء میں “سدرن ہاررز” اور 1895ء میں جاری کیا جانے والا “اے ریڈ ریکارڈ” تھا جو مفصل ہونے کے ساتھ ساتھ اعداد و شمار سے پُر تھے۔