‘بلاک چین کیا ہے اور محنت کشوں کو اس کی فکر کیوں کرنا چاہیے؟

Drawing of boxes with computer circuitry inside (State Dept./D. Thompson)
(State Dept./D. Thompson)

کوکا کولا کمپنی چینی پر خاص توجہ دینا چاہتی ہے۔ 2016 میں مزدوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے “[ترسیلی] سلسلے سے آگاہ رہیں” نامی ایک گروپ نے خوراک اور مشروبات تیار کرنے والی ’10 بڑی’ کمپنیوں کے بارے میں رپورٹ جاری کی جن میں کوکا کولا بھی شامل تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان میں کوئی بھی کمپنی اپنے ترسیلی سلسلے میں مزدوری کے عالمی معیارات پر پورا نہیں اترتی اور گنے کی فصل ایسی اجناس میں شامل تھی جس کے حصول اور ترسیل کا سلسلہ انتہائی بے قاعدگی کا شکار ہے۔

اس رپورٹ کے ردعمل میں کوکا کولا نے امریکی دفتر خارجہ کی شراکت سے گنے کی ترسیل کے اپنے سلسلے پر ‘بلاک چین’ ٹیکنالوجی آزمائی تاکہ گنے کے ترسیل کنندگان کی شفافیت اور احتساب کے نظام کوبہتر بنایا جا سکے۔

Infographic explaining blockchain technology (State Dept.)

اشیا کے ترسیلی سلسلوں میں مزدوروں کے استحصال سے متعلق خدشات کا اندازہ لگانے کے لیے معلومات سے کام لینے والی سافٹ ویئر کمپنی ایف آر ڈی ایم نے کوکا کولا اور دفتر خارجہ کے درمیان شراکت پر نظر رکھی۔ کمپنی کی ڈائریکٹر ایڈیلائن لیمبرٹ  کے خیال میں یہ سب کچھ  بے حد امید افزا دکھائی دیتا ہے۔

لیمبرٹ کہتی ہیں، ”اس وقت ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں خریدار ترسیل کنندگان سے معاہدے کرتے ہیں اور ان کو اپنے ترسیلی سلسلے کے بارے میں اس معاہدے کے علاوہ کسی اور چیز کا علم نہیں ہوتا۔” ترسیلی سلسلے کی نچلی سطح پر اگر کام کے معاہدے ہوں بھی تو محنت کشوں کو عموماً ان تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ ترسیلی سلسلے کی نگرانی کرنے والوں کو بالعموم اسی سطحع پرمزدوروں کے حقوق کی بدترین پامالی دکھائی دیتی ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کمپنیوں کے پاس کوئی ایسا نظام ہو جس سے خریداروں کو نا صرف یہ علم ہو سکے کہ ان کا ترسیل کنندہ کون ہے بلکہ وہ یہ بھی جان سکیں کہ ان کے ترسیل کنندہ کو مال کون فراہم کرتا ہے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر تیسرے فریقین کون ہیں تو پھر ترسیلی سلسلوں میں زیادہ شفافیت آ سکتی ہے۔

محکمہ خارجہ کوکا کولا کے گنے کے ترسیلی سلسلے میں بلاک چین کے اطلاق کو تجرباتی بنیادوں پر استعمال کر رہا ہے اور ممکن ہے ایک دن محنت کشوں کے دوسرے گروہوں کو بااختیار بنانے کے لیے اس کے استعمال کو وسعت دیدی جائے۔

عالمگیر شراکتوں کے قائم مقام خصوصی نمائندے تھامس ڈیبیس، بین کیو کے بانی اور سی ای او اشیش گاڈنس کی جانب سے اس ٹیکنالوجی کے بارے میں جاننے کے بعد یہ دیکھ کر خاصے متاثر ہوئے کہ بلاک چین ٹکنالوجی کیسے چھوٹے کسانوں، عورتوں اور مہاجرین کو جدید معیشت کا حصہ بننے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

بین کیو کمپنی مالیاتی اداروں اور غیرسرکاری و سرکاری اداروں کو مشورے دیتی ہے کہ وہ بلاک چین پراپنا ڈیٹا بیس بنا سکتے ہیں۔ گاڈنس نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جب کوئی کاروبار بلاک چین پر لین دین کی ریکارڈنگ شروع کرتا ہے تو یہ کارکنوں  کو ترسیلی سلسلے میں شامل کرلیتا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ”اگر آپ گنے کے روایتی ترسیلی سلسلے کو دیکھیں تو یہ فصل آٹھ مختلف ہاتھوں سے ہوتی ہوئی اپنی آخری منزل پر پہنچتی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ نقصان  … اس مزدور کو ہوتا ہے جس کا استحصال کیا  رہا ہوتا ہے۔” تاہم بلاک چین کی بدولت ”اب ان محنت کشوں کے پاس معاشی پاسپورٹ ہیں جن کے ذریعے وہ غارت کردینے والی غلامانہ مزدوری سے نکل سکتے ہیں کیونکہ اب وہ چاہیں تو معلومات اور اعدادوشمار حاصل کر سکتے ہیں”

اس سے تارکین وطن کارکنوں، بے گھروں اور مہاجرین جیسی عارضی آبادیوں کی زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں کیونکہ وہ اپنا اہم شناخت ریکارڈ کھو چکے ہوتے ہیں۔

27 اگست کو گاڈنس اردن میں امریکی سفارت خانے میں ورچوئل خطاب کریں گے اور شامی مہاجر خواتین کو بلاک چین میں شامل کرنے کی بارے میں بتائیں گے تاکہ وہ قانونی طور پر روزگار حاصل کر سکیں اور انہیں کریڈٹ تک رسائی مل سکے۔

وہ کہتے ہیں ”ہر کوئی معاملے کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تاہم اگر آپ ایک محنت کش ہیں تو آپ اپنے بچوں کی روٹی کے لیے یہ تمام کوششیں کرتے ہیں۔ اِن سارے معاملات کا تعلق ڈیٹا کے حقوق سے ہے۔”