
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے روس پر “جنگ کے راستے” کو ترک کرنے اور یوکرین کی سرحدوں سے اپنی فوجیں ہٹانے پر زور دیا ہے۔
وزیر خارجہ نے 17 فروری کو نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کہا، “اس وقت جب ہم اس اجلاس میں شریک ہیں امن اور سلامتی کے لیے اشد ترین خطرہ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے بڑھتے ہوئے سائے ہیں۔”
وزیر خارجہ نے کہا کہ روس کے منصوبے مہینوں سے [ہماری] “آنکھوں کے سامنے آشکار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔” روس نے یوکرین کے ساتھ اپنی سرحدوں پر، بیلاروس میں اور روس کے زیر قبضہ کریمیا میں 150,000 فوجی جمع کیے ہوئے ہیں۔ گو کہ روس اپنی افواج کو کم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر بلنکن نے کہا کہ اس کے فوجی، طیارے اور بحری جہاز چند دنوں میں یوکرین پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔
بلنکن نے اس بات پر زور دیا کہ روس “فالس فلیگ آپریشن” کے نام سے جانا جانے والا ایک دھوکہ دہی پر مبنی اشتعال انگیزی کا کوئی بھی بہانہ تراش سکتا ہے، یوکرین کی حکومت کو موردِ الزام ٹھہرا سکتا ہے اور پھر یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے اسے جعلی جواز کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔
من گھڑت اور جھوٹی اشتعال انگیزی روس میں کسی دہشت گردانہ حملے یا شہریوں کے خلاف بموں یا کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے حملے کی صورت میں سامنے آ سکتی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ روس کا ریاستی کنٹرول والا میڈیا پہلے ہی جنگ کے خود ساختہ جواز کے لیے راہ ہموار کرنے کی خاطر جھوٹے دعوے پھیلا رہا ہے۔
‘خطرے کے لمحات’
وزیر خارجہ نے کہا کہ یہاں یوکرین سے بڑھکر اور بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ روس کی مسلسل دھمکیاں اقوام متحدہ کے بانی اصولوں کو للکار رہی ہیں۔
بلنکن نے کہا، “یہ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور حفاظت کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے اُس منشور اور قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام کی بنیاد کے لیے بھی خطرے کی گھڑی ہے جو دنیا بھر میں استحکام کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔”
اقوام متحدہ کی بنیاد قومی خودمختاری کے اصولوں پر رکھی گئی تھی جس کے تحت کوئی بھی ملک بذریعہ طاقت دوسری قوم کی سرحدوں کو تبدیل نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی دوسرملک کی خارجہ پالیسی کے فیصلوں کے بارے میں اپنا حکم چلا سکتا ہے۔
یوکرین میں2014 میں تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب روس نے جزیرہ نما کریمیا پر یر قانونی قبضہ کیا اور اس کے بعد مشرقی یوکرین میں پراکسی جنگ پر اکسانا شروع کر دیا۔

امریکہ منسک معاہدوں کی حمایت کرتا ہے جن میں مشرقی یوکرین میں تنازع کے خاتمے کا لائحہ عمل طے کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے ان معاہدوں کی “روس کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیوں” کا ذکر بھی کیا ہے۔
بلنکن نے اس بات پر زور دیا کہ روس جنگ کی بجائے کسی متبادل راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔ امریکہ اپنے اتحادیوں اور یورپی شراکت داروں کے ساتھ مل کر سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جن میں نیٹو-روس کونسل اور یورپ کی سلامتی اور تعاون کی تنظیم کی مستقل کونسل کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا، “روسی حکومت بغیر کسی پیشگی شرط، ابہام، یا انحراف کے آج اعلان کر سکتی ہے کہ روس یوکرین پر حملہ نہیں کرے گا۔ [روس] اسے دنیا کے سامنے صاف اور سادہ الفاظ میں بیان کرے۔”
وزیر خارجہ نے روس پر زور دیا کہ وہ اپنے فوجیوں کو واپس ان کی بیرکوں میں بھیجے اور یوکرین اور یورپی حکام کے ساتھ سفارتی بات چیت جاری رکھے۔
انہوں نے کہا، “ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ [ہم] سفارت کاری کی کامیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔”