بلنکن کا امریکہ اور بھارت کے درمیان موجود ‘گہرے تعلقات’ کو اجاگر کرنا

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ امریکہ کی بھارت کے ساتھ شراکت داری دونوں ملکوں کی سلامتی، جدت طرازی اور خوشحالی کو فروغ دیتی ہے۔

12 جون کو ‘یو ایس-انڈیا بزنس کونسل’ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے بلنکن نے دونوں ممالک کے گہرے اقتصادی اور ثقافتی تعلقات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے صدر بائیڈن کے امریکہ اور بھارت کی شراکت داری کو اکیسویں صدی کے “عہد ساز تعلقات” قرار دیئے جانے والے بیان کا اعادہ کیا۔

بلنکن نے کہا کہ “سادہ لفظوں میں ہم اِن عہد ساز تعلقات کو دنیا کی قدیم ترین اور سب سے بڑی جمہوریتوں کے درمیان ایک منفرد تعلق کے طور پر دیکھتے ہیں۔” دونوں ممالک کی “اب یہ خصوصی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس امر کا عملی مظاہرہ کریں کہ ہماری حکومتیں اپنے تمام شہریوں کی خدمت کر سکتی ہیں اور اور انہیں بااختیار بنا سکتیں ہیں۔”

بلنکن نے امریکہ اور بھارت کی بزنس کونسل کے “انڈیا آئیڈیاز” کے موضوع پر واشنگٹن میں ہونے والے چوٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران ایک ایسے وقت اِن خیالات کا اظہار کیا جب صدر بائیڈن اور خاتونِ اول جِل بائیڈن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا وائٹ ہاؤس میں 22 جون کو دیئے جانے والے ایک سرکاری عشائیے کے موقع پر استقبال کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کے دورے سے امریکہ اور بھارت کے درمیان “گہرے تعلقات” مزید مضبوط ہوں گے جن میں امریکہ میں آباد 40 لاکھ سے زائد بھارتی نژاد افراد اور کووڈ-19 عالمی وبا کے دوران کیا جانے والا باہمی تعاون بھی شامل ہے۔

اقتصادی تعلقات

امریکہ بھارت کا سب سب بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ دونوں ملکوں میں 2022 میں 191 ارب ڈالر کی ریکارڈ مالیت کی تجارت ہوئی۔ امریکی کمپنیاں بھارت میں 54 ارب ڈالر کی سرمایہ کاریاں کر چکی ہیں جن سے دیگر کے علاوہ  مصنوعات سازی اور ٹیلی کمیونیکیشن کی صنعت کو بڑھاوا ملا ہے۔

بلنکن نے کہا کہ امریکہ میں انفارمیشن ٹکنالوجی اور دوا سازی کے شعبوں سمیت بھارت نے 40 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے جس سے امریکہ میں 425,000 ملازمتوں میں مدد مل رہی ہے۔

بلنکن نے مزید کہا کہ بھارتی نژاد امریکی کاروباری نظامت کاروں کو بھی عظیم کامیابیاں ملی ہیں۔ اِس ضمن میں انہوں نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ امریکہ میں تارکین وطن کے شروع کردہ کاروباروں میں سے ایک تہائی کاروبار بھارتی نژاد افراد نے شروع کیے۔

تعلیمی تبادلے

دو لاکھ سے زائد بھارتی طلباء امریکی یونیورسٹیوں میں بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر ٹیک کاروباری نظامت کاری تک پھیلے مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اُن کی متنوع مہارتوں سے اقتصادی ترقی اور جدت طرازی میں تیزی آ رہی ہے جس سے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔

گریما شیکھر ایک عمارت کے سامنے کھڑی ہیں اور اُن کے آگے 'ہارورڈ بزنس سکول' کا نصب بورڈ دکھائی دے رہا ہے (Courtesy of Garima Shekhar)
2022 کی اس تصویر میں دکھائی دینے والیں گریما شیکھر کا شمار بھارت کے اُن بہت سے طلبا اور طالبات میں ہوتا ہے جو امریکی یونیورسٹیوں میں اعلٰی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ (Courtesy of Garima Shekhar)

بلنکن نے امریکہ اور بھارت کے تعلیمی نظاموں کو “غیر معمولی طور پر طاقتور” قرار دیا۔ اِس ضمن میں انہوں نے کہا کہ اِن نظاموں نے امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں کو لیڈر دیئے ہیں جن کی مثالیں گوگل کے سی ای او، سندر پچائی اور ماسٹر کارڈ کے سابق سی ای او اور ورلڈ بنک کے موجودہ صدر، اجے بنگا ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، “مجھے بھرپور اعتماد ہے کہ بھارتیوں کی ابھرتی ہوئی نسل، [اور] امریکیوں کی ابھرتی ہوئی نسل ہمارے درمیان موجود تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جائیں گیں۔”

ٹکنالوجی اور سکیورٹی

بلنکن نے مواقعوں میں اضافہ کرنے اور اختراع کو فروغ دینے پر یو ایس۔انڈیا بزنس کونسل کی کوششوں کی بھی تعریف کی۔ امریکہ اور بھارت کی حکومتیں نجی شعبے اور دیگر کے ساتھ ایسے معیارات مقرر کرنے کے لیے شراکت داری کر رہی ہیں جن سے جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کا احترام کرنے والی تکنیکی اختراعات کو بڑھاوا ملے گا۔

بلنکن نے کہا کہ اپنے کواڈ کے شراکت داروں، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر امریکہ اور بھارت “ایک آزاد، کھلے، محفوظ، خوشحال بحرہند وبحرالکاہل” کی تعمیر کے لیے کوشاں ہیں۔ چاروں جمہوریتیں سمندری سلامتی اور آفات کے دوران امداد کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں میں بھی تعاون کر رہی ہیں۔

بلنکن نے کہا کہ “ہم مل کر  مستقبل کی اختراعات کی صورت گری میں مدد کر رہے ہیں۔ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ٹکنالوجی کو کس طرح ڈیزائن کرنا ہے اور اسے کس طرح استعمال کرنا ہے اس کے [فیصلے] جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے احترام کو مدنظر رکھ کر کیے جانے چائیں۔”