
امریکہ خوراک کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران کے لیے 362 ملین ڈالر کی اضافی امداد فراہم کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ دنیا میں جاری لڑائیوں کی وجہ سے یہ بحران پہلے ہی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے اِس نئی امداد کا اعلان 3 اگست کو اقوام متحدہ میں کیا اور بتایا کہ یہ امداد فوری طور پر افریقہ کے 11 ممالک میں اور ہیٹی میں حاملہ خواتین تک پہنچائی جائے گی۔ انہوں نے دنیا کے ممالک پر زور دیا کہ وہ خوراک کے اس عالمی بحران کے بنیادی اسباب سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کریں۔
بلنکن نے قحط اور تنازعات سے پیدا ہونے والے عالمی غذائی عدم تحفظ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہونے والی ایک کھلی بحث کے دوران کہا کہ “بھوک اور جنگیں ایک دوسرے سے باہم منسلک ہیں۔” بلنکن نے کہا کہ کم وسائل کشیدگی کو بڑھا رہے ہیں جبکہ متحارب فریق خوراک کو ہتھیار بنا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ “اس میں کوئی شک نہیں کہ خوراک کے عدم تحفظ کا سب سے بڑا محرک جنگیں ہیں جن کے ساتھ تشدد اور بدامنی نے مل کر گزشتہ برس 117 ملین افراد کو محرومیت کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔”
خوراک کے عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے امریکہ جنوری 2021 کے بعد سے 17.5 ارب ڈالر سے زائد فراہم کر چکا ہے۔ انہوں نے حکومتوں، نجی شعبے اور دیگر عطیات دہندگان سے کہا کہ وہ “زیادہ کشادہ دلی” سے کام لیں تاکہ غذائی سلامتی کی فوری ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی جو 2050 تک 10 ارب تک پہنچ سکتی ہے، روزافزوں ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکے۔
As I said to the @UN Security Council, hunger and conflict are inextricably linked. We must stop the weaponization of hunger, beginning with Russia’s war of aggression against Ukraine and its assault on the global food system. Failure to act now will have dire consequences. pic.twitter.com/7P2DZVUzIL
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) August 3, 2023
بلنکن نے اس ضمن میں برما اور یمن کے تنازعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے لوگ غذائیت کی شدید قلت کا شکار ہیں اور انہوں نے توجہ دلائی کہ اگر دنیا حرکت میں نہ آئی تو برکینا فاسو، جنوبی سوڈان اور صومالیہ کو جلد ہی قحط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بلنکن نے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ، بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے سے اس کی دستبرداری اور یوکرین کی بندرگاہوں اور خوراک کی ترسیلوں پر حالیہ حملوں کی طرف بھی توجہ دلائی اور کہا کہ خوراک کے بحران میں اِن امور کا بڑا کردار ہے۔
انہوں نے دنیا کے ممالک پر اُن ممالک کے ساتھ شامل ہونے پر زور دیا جو روس سے اناج کے اُس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے تحت 32 ملین میٹرک ٹن سے زیادہ یوکرین کی زرعی برآمدات کو غذائی عدم تحفظ کے شکار یمن، ایتھوپیا، صومالیہ اور افغانستان جیسے ممالک سمیت دنیا بھر کے ممالک میں محفوظ طریقے سے پہنچایا جا چکا ہے۔ جولائی میں روس ایک ایسے معاہدے سے نکل گیا جس کے تحت اتنی گندم برآمد کی جا چکی ہے جس سے 18 ارب روٹیاں تیار کی جا سکتیں ہیں۔
بلنکن نے کہا کہ “اِس کونسل کے ہر رکن کو، اقوام متحدہ کے ہر رکن کو ماسکو کو یہ بات بتانا چاہیے کہ بہت ہو گیا ہے۔ بحیرہ اسود کو بلیک میل کے لیے بہت استعمال کر لیا گیا ہے؛ دنیا کے کمزور ترین لوگوں سے بہت فائدہ اٹھا لیا گیا ہے۔”
امریکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر خوراک کے نظام کو مزید مضبوط بنانے پر بھی کام کر رہا ہے۔ جولائی میں امریکہ نے “موافقت پذیر فصلوں اور مٹی کے تصور” (وی اے سی ایس) نامی پروگرام کے تحت 100 ملین ڈالر کی امداد کی منظوری دی جس سے افریقہ میں صجت مند، زرخیز، خشک سالی برداشت کرنے والی ایسی زمینوں کو فروغ دیا جا رہا ہے جو خشک سالی کے دنوں میں بھی پانی کا ذخیرہ کرسکیں اور فصلوں کو انتہائی اہم غذائی اجزا فراہم کر سکیں۔
وی اے سی ایس کے تحت افریقہ کی ایسی مقامی فصلوں کی نشاندہی کرنے کے لیے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات برداشت کر سکتی ہوں۔ نشاندہی کے کام کے بعد اِن کے بیج تیار کیے جائیں گے اور زیادہ پیداوار کے لیے اِن کے کاشت کے رقبے میں اضافہ کیا جائے گا۔
بلنکن نے مزید کہا کہ “امریکہ اپنے حصے کا کام کرتا رہے گا۔ مگر حقیقت میں یہ ایک عالمی چیلنج ہے۔ اس کے لیے عالمی وسائل درکار ہیں۔ ہماری نظریں غذائیت کو بہتر بنانے اور خوراک کے پائیدار اور مضبوط نظاموں میں سرمایہ کاری کرنے میں ہماری مدد کرنے کے لیے حکومتوں، کمپنیوں، [اور] انسان دوست اداروں پر لگی ہوئی ہیں۔”