
امریکہ اور یورپی اتحادی یوکرین کے بحران کے حل کے لیے سفارت کاری پر زور دینا جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ روس یوکرین کی سرحد پر اپنی فوجوں میں بلا اشتعال اضافہ کرکے کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 18 سے 21 جنوری کے دوران یوکرین کے خلاف مزید روسی جارحیت کو روکنے کے لیے جاری کوششوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے کیف، یوکرین؛ برلن اور جنیوا کا دورہ کیا۔
بلنکن نے 21 جنوری کو جنیوا میں کہا، “ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ اگر روسی افواج یوکرین کی سرحد عبور کرتی ہیں تو یہ ایک نیا حملہ ہوگا۔ امریکہ اور ہمارے شراکت داروں اور اتحادیوں کی جانب سے اس کے جواب میں تیز، شدید اور متحدہ ردعمل دیا جائے گا۔”
کیف

بلنکن نے کیف سے اپنے دورے کا آغاز کیا جہاں انہوں نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی اور وزیر خارجہ دیمیترو کولیبا سے ملاقاتیں کیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ یوکرین “ایک ایسے وقت یوکرین کے ساتھ امریکہ کی غیرمتزلزل حمایت کا اعادہ کرنے کے لیے آئے ہیں جب اس کی سلامتی، اس کی خوشحالی، اس کی جمہوریت، [اور] اس کے ایک خودمختار، آزاد ملک کے طور پر زندہ رہنے کے بنیادی حق کو روس کی جانب سے ایک ایسا چیلنج درپیش ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔”
انہوں نے خاص طور پر کہا کہ روس نے 2014 میں ملک کی خودمختاری کو اس وقت نقصان پہنچایا جب اس نے یوکرین پر حملہ کیا، کریمیا پر قبضہ کیا اور ڈونباس کے علاقے میں تصادم کو ہوا دی۔
یوکرین میں روس کے جابرانہ اقدامات میں مندرجہ ذیل اقدامات شامل ہیں:-
- کریمیا اور ڈونباس کے علاقے میں رہنے والے یوکرینیوں کو باقی ملک سے کاٹنا۔
- سیکڑوں یوکرینیوں کو سیاسی قیدی بنا کر رکھنا۔
- یوکرین کے انتخابات اور سیاست میں مداخلت کرنا۔
- توانائی کی فراہمی اور تجارت کو روکنا۔
- سائبر حملے کرنا۔
بلنکن نے کہا، کہ “1991 میں یوکرینی عوام نے جمہوری اور یورپی راستے کا انتخاب کیا۔ اور بدقسمتی سے تب سے آپ کو ماسکو کی طرف سے مسلسل جارحیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔”
برلن

وزیر خاارجہ نے اس کے بعد برلن کا دورہ کیا۔ یہ وہ شہر ہے جو سرد جنگ کے دوران دو حصوں میں تقسیم اور جب جرمنی مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم تھا۔
بلنکن نے 20 جنوری کو برلن-برانڈنبرگ اکیڈمی آف سائنسز میں تقریر کرتے ہوئے کہا، “یوکرین کے خلاف ماسکو کی اندھا دھند دھمکیوں اور خطرناک فوجی نقل و حرکت کے باوجود – اس کی مبہم اور گمراہ کن معلومات کے باوجود – امریکہ نے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس خود ساختہ بحران سے نکلنے کا سفارتی حل پیش کیا ہے۔”
بے شک روس یہ کہتا ہے کہ وہ یہ اقدامات اپنے دفاع میں اٹھا رہا ہے مگر اس کا طرز عمل شدید عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ یوکرین ایک خودمختار ملک ہے۔ پیوٹن نے 2008 میں حملے کے بارے میں اپنے ارادوں کو اُس وقت واضح کیا جب انہوں نے صدر جارج ڈبلیو بش کو بتایا کہ “یوکرین ایک حقیقی ملک نہیں ہے۔” اور 2020 میں پیوٹن نے کہا کہ روسی اور یوکرینی “ایک ہیں اور ایک جیسے ہیں۔”
بلنکن نے کہا کہ موجودہ تنازعے کی نوعیت بین الاقوامی ہے کیونکہ کوئی ملک اپنی سرحدوں سے باہر خارجہ پالیسی کا اپنا حکم نہیں چلا سکتا اور نہ ہی نتائج کا سامنا کیے بغیر کسی دوسرے ملک کے فیصلوں کو ختم کر سکتا ہے۔
روس نے یوکرین کی سرحدوں کے قریب ایک لاکھ فوجی تعینات کرنے کے ساتھ ساتھ اس ہفتے بیلاروس میں فوجی سازوسامان بھیجنے کے علاوہ مالدووا کی رضامندی کے بغیر مالدووا میں اپنے فوجی تعینات کیےہیں ۔
بلنکن نے برلن میں کہا، “روس یوکرین مخالف اپنی دھمکیوں میں اضافہ کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہم نے ابھی گزشتہ چند دنوں میں دیکھا ہے کہ [روس] روز افزوں جھگڑالو بیان بازی کرتے ہوئے بیلاروس سمیت، یوکرین کی سرحدوں پر اپنی فوجوں میں اضافہ کر رہا ہے۔”
جنیوا

بلنکن نے 21 جنوری کو جنیوا میں روسی صدر سرگئی لاوروف سے ملاقات کی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم دونوں نے “بے تکلف اور ٹھوس” تبادلہ خیال کیا۔
انہوں نے لاوروف سے پوچھا کہ 2014 کے بعد سے روس کی جارحانہ حکمت عملی اس کے اپنے دفاع کے دعووں میں کس طرح مدد کر رہی ہے۔ بلنکن نے کہا کہ انہوں نے لاوروف کو بتایا کہ “حالیہ برسوں میں آپ نے جو کچھ کیا ہے اس نے عملی طور پر ہر اُس چیز کو ختم کرکے رکھ دیا ہے جسے آپ کہتے ہیں کہ آپ روکنا چاہتے ہیں۔”

مثال کے طور پر 2014 سے پہلے صورت حال مندرجہ ذیل تھی:-
- 70 فیصد یوکرینی روس کے بارے میں مثبت تاثر رکھتے تھے جبکہ آج اس تعداد کی شرح صرف 25 فیصد یا 30 فیصد ہے۔
- 25 فیصد یوکرینی نیٹو میں شامل ہونا چاہتے تھے آج 60 فیصد رکنیت کی حمایت کر رہے ہیں۔
- نیٹو اتحادیوں کے دفاعی اخراجات آج کے مقابلے میں کم تھے۔ روس کی جارحیت کی وجہ سے اس تنظیم نے اپنی فنڈنگ میں اضافہ کر دیا ہے۔
وزیر خارجہ نے اس سے قبل بتایا کہ امریکہ اور اس کے یورپی شراکت کارحالیہ ہفتوں میں 100 سے زیادہ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
“ہم سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کے اپنے عزم میں جتنے متحد ہیں اتنے ہی روس کی جانب سے تصادم اور تصادم کا راستہ اختیار کرنے کی صورت میں بڑے پیمانے پر نتائج مسلط کرنے کے اپنے عزم میں بھی متحد ہیں۔”