ایک مطالعاتی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ روائتی طور پر اگائی گئی سبزیوں کے مقابلے میں جدید جینیاتی  تبدیلیوں  والی سبزیوں کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے، لاگت کم آتی ہے اور اُن کا ذائقہ بھی بہتر ہوتا ہے۔

بنگلہ دیش میں کیے جانے والے اس مطالعاتی جائزے کا عنوان: جی ایم خوراک کے اثرات: بنگلہ دیش میں جینیاتی تبدیلی والے بینگنوں کے محدود اور اتفاقیہ  تجربات کے نتائج ہے اور یہ زرعی معشیت کے امریکی جریدے میں 13 نومبر کو شائع ہوا ہے۔

اس مطالعاتی جائزے میں جینیاتی تبدیلی والے بینگن استعمال کرنے والے کسانوں کا مقابلہ روائتی بینگن اگانے والے کسانوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جینیاتی تبدیلی والے بینگنوں کو کیڑے مکوڑے کم نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس جائزے کے مصنفین کو معلوم ہوا ہے کہ جینیاتی تبدیلی والے بینگن اگانے والے کسانوں کی پیداوار میں 50 فی صد اضافہ ہوا اور انہوں نے 33 فیصد کم کیڑے مار دوائیں استعمال کیں۔

اس کے نتیجے میں جینیاتی تبدیلی والے بینگن اگانے والے کسانوں کو زیادہ آمدنی ہوئی اور ان میں کیڑے مار دواؤں سے زہر کے پھیلنے کے کم خطرات دیکھے گئے۔

اس جائزے سے پتہ چلا ہے کہ جینیاتی تبدیلی والے بینگنوں سے “پیداوار اور آمدنی میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ ساتھ انسانوں اور ماحولیاتی صحت کو نقصان پہنچانے والی کیڑے مار دواؤں سے ہونے والے نقصانات میں بھی کمی آتی ہے۔”

اس مطالعاتی جائزے کے لیے بنگلہ دیش کی حکومت اور امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) نے فنڈ فراہم کیے۔ واشنگٹن کی تحقیقی اور پالیسی کی تنظیم، انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (آئی ایف پی آر آئی) نے اس مطالعاتی جائزے پر کام کیا۔

 ایک آدمی کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے بینگن کے دو ٹکڑے جن میں لگا ہوا کیڑا اور بھورا رنگ دکھائی دے رہا ہے۔ (© Cornell Alliance for Science)
بنگلہ دیش کے کسان، حفیظ الرحمان روائتی طور پر اگائے گئے بینگن میں پھلوں اور شاخوں میں سوراخ کرنے والے کیڑوں کی طرف سے کیے جانے والا نقصان دکھا رہے ہیں۔ (© Cornell Alliance for Science)

بینگن میں کی جانے والی واحد تبدیلی ایک ایسی جین کو متعارف کرانا تھا جو سبزی اور شاخ  میں سوراخ کرنے والے کیڑوں کو نشانہ بناتی ہے۔ تحقیق کے مطبق سوراخ کرنے والے کیڑے 86 فیصد پودوں کو متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے کسانوں کو اپنی فصلوں پر کثرت سے کیڑے مار دواؤں کا چھڑکاؤ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جینیاتی تبدیلی والے پودے محفوظ ہوتے ہیں اور سائنس دانوں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دنیا بھر میں بھوک اور غذائی عدم سلامتی کو ختم کرنے میں مدد کرنے کے لیے ترمیم شدہ فصلوں کی منظوری دیں۔

کیونکہ روائتی بینگنوں کی پیداوار کے مقابلے میں جینیاتی تبدیلی والے بینگنوں کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے اس لیے مطالعاتی جائزے میں شامل کسان اپنے استعمال کے لیے زیادہ بینگن رکھ سکنے کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں بھی زیادہ بینگن فروخت کر سکتے ہیں۔

اس جائزے میں کہا گیا ہے کہ اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ کسانوں کو جینیاتی تبدیلی والے بینگنوں کے زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ کیونکہ اِن پر کیڑے مار دوائیوں کا کم چھڑکاؤ کیا جاتا ہے، یہ اچھے دکھائی دیتے ہیں اور اِن کا چھلکا نرم ہوتا ہے جس کی وجہ سے “انہیں پکانا آسان ہوتا ہے … (اور یہ) زیادہ ذائقہ دار ہوتے ہیں۔”

اس جائزے سے پتہ چلا  کہ جینیاتی بینگنوں کی وجہ سے آمدنی میں 128 فیصد زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔

ایک کسان نے بتایا کہ چونکہ پہلے پہل گاہک ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے تھے لہذا اس نے گاہکوں کو یہ سبزی مفت دی۔

اس جائزے میں اسی کسان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ شروع میں جینیاتی بینگن “دو یا تین دن تک [فروخت] نہیں ہو پا رہے تھے۔” مگر جب گاہکوں نے اسے استعمال کرکے دیکھا تو “مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔”