مصری نژاد امریکی ماں اور بیٹی بوسٹن والوں کو گوشت کے بغیر تیار کیے جانے والے مقبول ترین مصری کھانوں کا عادی بنا رہی ہیں۔ واضح رہے کہ بوسٹن سمندری خوراک اور اطالوی کھانوں کے لیے مشہور ہے۔
سحر احمد نے اپنی بیٹی دینا فہیم کے ساتھ مل کر 21 نومبر کو “کوشاری ماما” کے نام سے سبزیوں اور گھی، دودھ یا دودھ سے بنی اشیاء کا استعمال کیے بغیر سبزیوں سے بنائے جانے والے “ویگن” کھانوں کا ایک ریستوران کھولا۔ “کوشاری” کو غیرسرکاری طور پر مصر کا قومی کھانا کہا جاتا ہے۔ اِس ریستوران میں ایک صحت بخش اور ماحول دوست خاندانی روائت کو برقرادر رکھتے ہوئے سبزی خوروں کے لیے مصری پکوان پیش کیے جاتے ہیں۔
سحر کا خاندان 1969 میں امریکہ منتقل ہوا۔ انہوں نے شیئر امریکہ کو عربی زبان میں انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ بچپن میں وہ چھٹی والے دن اپنی والدہ کا تیار کردہ کوشاری مزے لے کر کھایا کرتی تھیں۔

کوشاری بنانے کے لیے چاولوں، پاستے، چنوں اور دالوں پر بھنا ہوا پیاز اور مصالحے دار ٹماٹر اور سرکے کی چٹنیاں ڈالی جاتی ہیں۔ سحر اپنی والدہ کے کوشاری تیار کرنے کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ “ہفتے اور اتوار والے دن وہ بھنے جانے والے پیاز کی خوشبو سونگھتے ہوئے اٹھا کرتی تھیں۔ میری والدہ کو چونکہ مصر بہت یاد آتا تھا اس لیے انہوں اپنے پسندیدہ کھانے پکانے شروع کر دیئے۔”
اُن کی والدہ نے مصری کھانوں اور ثقافت کو متعارف کرانے کے لیے اپنے ہمسایوں کو کھانوں پر مدعو کرنا شروع کر دیا۔
سحر بتاتی ہیں کہ “اپنی والدہ کے انتقال کے بعد میں اس روائت کو جاری رکھنا چاہتی تھی۔ مل بیٹھ کے کھانے میں کوئی نہ کوئی چیز ایسی نکل آتی ہے جس سے گفتگو کا سلسلہ چل نکلتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو جاننے لگتے ہیں۔”
اپنے ریستوران میں سحر کھانے کے آرڈر لیتی ہیں اور گاہکوں کے ساتھ باتیں کرتی ہیں۔ دینا نے بوسٹن یونیورسٹی سے کھانے پکانے کے پروگرام میں گریجوایشن کر رکھی ہے۔ وہ اپنے خاندان کے پسندیدہ مصری کھانے پکاتی ہیں۔ اگرچہ کوشاری ماما کے کھانوں کا مینیو مکمل طور پر ویگن ہے مگر سحر بتاتی ہیں کہ سبزی خوری مصر کی عام ریت نہیں ہے حالانکہ امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں مصر میں بہت کم گوشت کھایا جاتا ہے۔
مصر کے بہت سے پسندیدہ کھانے گوشت کے بغیر پکائے جاتے ہیں جبکہ سحر گوشت کے استعمال کو بالکل ختم کرنے کی بجائے اس کی مقدار کم کرنے کے حق میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ “اگر میں گوشت کھانا تھوڑا سا کم کر سکوں تو یہ صحت کے لیے اچھا ہو گا اور ہاں یہ دنیا کے لیے بھی اچھا ہو گا۔”

ہارورڈ کے غذائیت اور وبائی امراض کے ماہر پروفیسر والٹر وِلیٹ کہتے ہیں کہ موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے گوشت کی کھپت کو کم کرنا صحت مند اور اہم ہے۔ 1970 کی دہائی میں مصر میں اپنے قیام کے دوران انہیں بحیرہ روم کی خوراک سے واسطہ پڑا جس میں نباتاتی بنیاد پر تیار کیے جانے والے کھانوں کو مرغی، مچھلی اور دودھ کی تھوڑی سی مقدار سے تیار کیا جاتا ہے۔
ولیٹ کہتے ہیں کہ “عمومی طور پر بحیرہ روم کی خوراک دنیا میں خوراک کا صحت مند ترین غذائی نمونہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اِن کھانوں میں صحت مندی اور پودوں پر مبنی اجزاء پر زور دیا جتا ہے۔”
حال ہی کی بات ہے کہ ایک دن کوشاری ماما میں کھمیوں سے تیار کردہ شوارما اور ویگن کُنافہ پیسٹری گاہکوں کی پسندیدہ ترین اشیاء میں شامل تھے۔ ایک گاہک نے شیئر امریکہ کو بتایا کہ “میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی مصری کھانا نہیں کھایا مگر یہ چیزیں یقینی طور پر بہت مزیدار تھیں۔”
ایک اور گاہک نے کہا کہ “یہ [کھانا] ذائقے سے بھرپور اور بہت اچھا تھا۔”