بچوں کی جبری مشقت کو مصنوعات کی تر سیل کے سلسلوں سے باہر نکالنا

عالمی سطح پر دنیا کے دس فیصد — 15 کروڑ 20 لاکھ — بچوں کو مزدوروں کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تعداد کے نصف حصے سے کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤ، زیر زمین کانوں کے تنگ گڑھوں میں اترنے، اور ماہی گیری کے جالوں کو سلجھانے کے لیے زیر آب غوطہ خوری جیسے خطرناک کام لیے جاتے ہیں۔

امریکہ کی وزارت محنت ان بھیانک اعداد و شمار کو 135 ممالک کے  بچوں کی مشقت کے بارے میں لیے جانے والے اپنے جائزے  کو رپورٹ کی شکل میں پیش کرتی ہے۔

Two boys working at sewing machines (© Jonas Gratzer/LightRocket via Getty Images)
بچوں کو اکثر چھوٹے چھوٹے اور غیرہنرمند کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بھارت کے اس مرکز میں یہ لڑکے سلائی کے کام کی تربیت حاصل کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں وہ اپنا سہارا خود بن سکیں۔ (© Jonas Gratzer/LightRocket via Getty Images)

امریکہ کے وزیر محنت، ایلکس کوسٹا اِس رپورٹ کے دیباچے میں تحریر کرتے ہیں، ” ان عوامل سے نہ صرف انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں بلکہ ایک غیرمساوی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے قانون کی پابندی کرنے والے کاروباروں کے لیے مسابقت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کسی ملک کی مزدورں کے استحصال کو روکنے میں ناکامی امریکی محنت کشوں کے ساتھ ساتھ عالمی محنت کشوں کی فلاح کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔”

بچوں کی مشقت کے خلاف مہم میں ایک اہم قدم اس مشقت کے ترسیل کے سلسلوں میں کردار کی نشاندہی کرنا ہے۔ ترسیل کے ان سلسلوں کا آغاز اُن کھیتوں میں ہوتا ہے جہاں فصلیں اگائی جاتی ہیں، اُن بحری جہازوں سے ہوتا ہے جو مچھلیاں پکڑتے ہیں اور ٹیکسٹائل کی  اُن فیکٹریوں تک جاری رہتا ہے جہاں بچوں سے کم اجرت پر ناموافق حالات میں مشقت لی جاتی ہے۔ ترسیل کے اس سلسلے کا اختتام اُن خریداروں پر ہوتا ہے جو انجانے میں ایسی مصنوعات خریدتے ہیں جو بچوں نے تیار کی ہوتی ہیں۔

صدر ٹرمپ کی قومی تجارتی پالیسی 2017ء  کے ایجنڈے میں ” [تجارتی] سمجھوتوں میں مزدوری کی شقوں پر عمل درآمد کرانے اور جبری مشقت کے تحت بنوائی جانے والی مصنوعات کی درآمد اور فروخت کو ممنوع قرار دینے کے قوانین کو نافذ کرنا شامل ہے۔”

Children sitting on rug under makeshift structure (© Jonas Gratzer/LightRocket/Getty Images)
استحصال سے بھاگنے والے بچوں کے لیے سکول محفوظ پناہ گاہیں بن سکتے ہیں۔ (© Jonas Gratzer/LightRocket/Getty Images)

کم عمر بچوں سے مزدوری کروانے کو ختم کرنے کی خاطر دو امریکی گروپ  دنیا بھر میں ترسیل کے عالمی نظاموں کو اوپر سے لے کر نیچے تک اور ابتدا سے لے کر آخر تک ختم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

کیلی فورنیا میں قائم ‘میڈ ان اے فری ورلڈ ‘ نامی ایک غیر منفعتی ادارے نے  بچوں کی جبری مشقت کے خطرات کا اندازہ لگانے کے لیے ایک سافٹ ویئر تیار کیا ہے۔ یہ سافٹ ویئر کسی مصنوعہ چیز کے بارے میں (یعنی یہ کیسے بنائی جاتی ہے، اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں)، عالمی تجارتی  بہاؤ سے متعلق، اور دنیا کی ہر صنعت میں جبری مزدوری سے تعلق رکھنے والے اعداد و شمار اکٹھے کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار کو ملا کر کسی کمپنی کی محنت کے قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے سے درجہ بندی کی جاتی ہے۔

اس درجہ بندی کی بنیاد پر ہر کمپنی  کو اپنی مصنوعات کے فراہم کنندگان کا تجزیہ کرنے میں مدد ملتی ہے تاکہ اس بات کا پتا چلایا جا سکے کہ آیا یہ مصنوعات بچوں نے تیار کی ہیں یا اُن لوگوں نے جنہیں یا تو اجرت دی ہی نہیں جاتی اور اگر دی جاتی ہے تو بہت کم دی جاتی ہے۔

Child peering out from behind rug on loom (© Tom Stoddart/Getty Images)
بھارت میں ایک فیکٹری میں ایک بچہ بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے قالین بُن رہا ہے۔ (© Tom Stoddart/Getty Images)

میڈ ان اے فری ورلڈ کی تجزیاتی  ڈائریکٹر ایڈلین لیمبرٹ کا کہنا ہے کہ اگر انہیں کسی مسئلے کا پتہ  چل جائے تو “ہم  کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اپنے فراہم کنندگان کے ساتھ مل کر اس مسئلے  کا حل نکالیں کیونکہ اُن کے  اس طرز عمل سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔”

بھارت میں قالین سازی کی صنعت میں تخصص رکھنے والی ” گُڈ وِیو ” نامی ایک غیرمنفعتی تنظیم کسی بھی کمپنی کے ترسیلی نظام کی تمام سطحوں پر نظر رکھتی ہے۔ اس کے  معائنہ کار اُن  علاقوں میں جاتے ہیں جہاں کم عمر بچے ثانوی ٹھیکیداروں کے دیئے ہوئے ٹھیکوں پر کام کرتے ہیں۔ ان کم عمر بچوں کے ثانوی ٹھیکےدار اور اصلی فراہم کنندہ کمپنی کے درمیان اور بھی کئی ٹھیکےدار ہوتے ہیں۔

گُڈ وِیو کے بیکو ناگرہ کا کہنا ہے، ” جب آپ فیکٹریوں سے باہر کی بات کرتے ہیں تو کسی کمپنی یا برانڈ کے لیے یہ جاننا بہت مشکل ہوتا ہے کہ اُن کے ترسیل کے سلسلوں میں کیا کچھ  ہو رہا ہے۔ ہم اپنی توجہ اُن دور دراز علاقوں پر مرکوز کرتے ہیں جہاں اس [بچوں سے مشقت کروانے کے] کام کے ہونے کے زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں۔”

گُڈوِیو کا کہنا ہے کہ کم عمر بچوں کی مزدوری، اکثر کمیونٹی کے ناخواندگی اور بے روزگاری  جیسےمسائل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ غیر منفعتی ادارے اس خطرے کے ممکنہ شکار بننے والے بچوں کو سکولوں میں داخلے دلواتے ہیں اور والدین کو بالغوں کے کاموں کے لیے تربیت دینے کا اہتمام کرتے ہیں۔

کم عمر بچوں کی  مشقت کے خاتمے کے لیے وقف ‘چائلڈ لیبر کولیشن’ نامی ایک تنظیم کے ریڈ مائیک کا کہنا ہے کہ بچوں کی جبری مشقت کو ختم کرنے کی خاطر صارفین کمپنیوں کو اپنی مصنوعاتی ترسیل کے سلسلوں کی نگرانی کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ” اُن کمپنیوں سے بات کریں جنہیں آپ پسند کرتے ہیں اور اُن سے بچوں کی مشقت کو کم کرنے کے بارے میں اُن کی پالیسیوں کے بارے میں سوالات پوچھیں۔ اگر صارفین کی ایک  معقول تعداد اس کے بارے میں اُن سے استفسار کرے گی تو کمپنیاں اپنے رد عمل کو مضبوط بنائیں گی۔”

شیئر امیریکا کے مارک ٹرینر نے اس مضمون کی تیاری میں ہاتھ  بٹایا۔