آسٹریلیا کی کاروباری خاتون، کرسٹی کار برسوں سے چاہ رہی تھیں کہ وہ اپنی کمپنی “ببس آسٹریلیا” کا بچوں کا دودھ امریکہ برآمد کریں۔ مگر اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اُن کی یہ خواہش اتنی جلدی پوری ہو جائے گی۔
اس سال “بے بی فارمولا” نامی [بچوں کے دودھ کی] سپلائی [ترسیل] کم ہوگئی۔ مئی کے مہینے میں یہ سپلائی کم ہوکر لگ بھگ آدھی رہ گئی۔ امریکی حکومت نے امریکی سٹوروں میں تیزی سے اور بچوں کے استعمال کے لیے محفوظ دودھ درآمد کرنے کے لیے “ببس آسٹریلیا” نامی کمپنی کے ساتھ شراکت داری کی۔ کار نے اس کمپنی کی بنیاد 2005 میں اپنے باورچی خانے میں رکھی تھی۔
امریکہ کے بہت سے حکومتی اداروں کی مدد سے چند ہفتوں کے اندر اس کمپنی نے اتنا دودھ پہنچا دیا جس سے بچوں کی دودھ کی 4.6 ملین بوتلیں بھری جا سکتی تھیں۔
آپریشن فلائی فارمولا
کار کی کمپنی نے امریکہ کے حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ امریکہ اور آسٹریلیا کے معیاری وقتوں میں فرق کی وجہ سے آسٹریلیا میں لوگوں نے دن رات محنت کی اور ایسے گدوں پر سوئے جن میں ہوا بھری جاتی ہے۔ یہ کاوش “آپریشن فلائی فارمولا” کے نام سے مشہور ہوئی۔ اگست کے وسط تک اس مشن کے تحت محفوظ اور غذائیت سے بھرپور بے بی فارمولا اتنی مقدار میں امریکہ پہنچا دیا گیا جو بچوں کی دودھ کی 69 ملین سے زائد بوتلیں بھرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ دودھ نصف درجن سے زائد ممالک سے درآمد کیا گیا۔
ببس آسٹریلیا کے بے بی فارمولے کی امریکہ کو بھیجی جانے والی پہلی کھیپ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کار نے بتایا کہ “امریکہ اور آسٹریلیا میں اسے عملی شکل دینے کے لیے سب لوگ دن رات کام کرتے رہے۔ یہ ایک ایسا مثبت تجربہ ہے جس کے دوران حکومت اور صنعتوں نے مسائل کے حل کے لیے یکسوئی سے مل کر کام کیا۔”
کار اور دیگر لوگ “آپریشن فلائی فارمولہ” کی کامیابی کو سپلائی کی رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے درکار تعاون کے ایک خاکے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسے اہم اشیا اور مصنوعات کے حوالے سے درپیش ایسے چیلنجوں کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے جو دنیا بھر کی صنعتوں کے لیے خطرناک مسئلہ بن چکے ہیں۔
.@POTUS has announced a third and fourth Operation Fly Formula mission — delivering 3.7 million bottles of Kendamil formula and 4.6 million bottles of Bubs Australia infant formula.
Learn more:
Third operation: https://t.co/KsXLuquwtmFourth operation: https://t.co/UXcUwyM0Rk.
— The White House (@WhiteHouse) June 1, 2022
19 اور 20 جولائی کو امریکہ کی خارجہ اور تجارت کی وزارتوں نے ترسیلی سلسلوں کے ایک وزارتی فورم کی میزبانی کی جس میں 18 سے زائد معیشتوں نے عالمی ترسیلی سلسلوں کو مضبوط بنانے کا وعدہ کیا۔ کار نے بھی اس فورم میں شرکت کی اور کہا کہ اس وزارتی فورم میں بتایا گیا کہ غیرمستحکم، غیریقینی ترسیلی سلسلوں سے دنیا کے تمام ممالک اور تمام شعبوں کی کمپنیوں کو یکساں نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے۔
حکومتوں، کاروباری اداروں، محنت کشوں اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے شرکا نے موجودہ قلتوں سے نمٹنے اور ماحولیات اور مزدوری کے معیارات کا پاس کرنے والے شفاف، متنوع اور محفوظ رسدی سلسلے بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا۔
کار کا کہنا ہے کہ غذائی تحفظ کے لیے آسٹریلیا کی ساکھ اور ببس کمپنی کی رسدی سلسلوں پر مکمل گرفت نے اِس کمپنی کو امریکہ کی منڈیوں کے لیے موزوں بنایا۔ چونکہ ببس اس سے پہلے بھی امریکہ کو کمسن بچوں کا دودھ برآمد کر چکی تھی اس لیے یہ کمپنی امریکہ کے خوراک اور دوائیوں کے ادارے [ایف ڈی اے] کے صحت اور سلامتی کی شرائط سے واقف تھی۔

مئی میں ایف ڈی اے نے بے بی فارمولہ بنانے والوں کے لیے محفوظ طریقے سے دودھ امریکہ بھیجنے کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا۔ ببس نے ایف ڈی اے کو غذائیت سے متعلق معلومات فراہم کیں اور بے بی فارمولا کی پیداوار بڑہانے کے لیے دن رات اور ہفتے کے ساتوں دن کام کرنا شروع کر دیا۔ ببس کا تیار کردہ بے بی فارمولہ لے کر پہلی پروازیں جون کے دوسرے ہفتے میں امریکہ پہنچنا شروع ہوئیں۔ امریکی اداروں نے کرائے پر طیارے حاصل کیے اور بڑے خوردہ فروشوں تک تیز رفتاری سے دودھ پہنچانے کی خاطر ہوائی اڈے پر ٹرک تیار کھڑے رکھے۔
ایف ڈی اے کی طرف سے دی جانے والی دیگر منظوریوں کے تحت برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور، نیوزی لینڈ اور میکسیکو سے بھی بے بی فارمولا منگوانے کی اجازت ہے۔ ان درآمدات سے 16 ملین کلو گرام اضافی بے بی فارمولا نومبر کے آخر تک منگوائے جانے کا منصوبہ ہے۔ یہ مقدار دودھ کی 524 ملین سے زیادہ بوتلوں کے لیے کافی ہو گی۔
کار کہتی ہیں کہ بین الاقوامی تعاون نے ایک ایسے کام کو تیز رفتاری سے ہفتوں میں مکمل کیا جس کو مکمل کرنے میں ہو سکتا ہے برسوں لگ جاتے۔ انہوں نے کہا کہ “سب سے زیادہ خوش کن بات یہ ہے کہ تمام فریقین یعنی حکومت، بے بی فارمولا بنانے والے، خوردہ فروش اور منتظمین سب کو اس مسئلے کو حل کرنے کی فکر لگی ہوئی تھی۔”