بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (ڈبلیو ایم ڈی) کی ٹیکنالوجی کئی طریقوں سے پھیل سکتی ہے۔ مثلاً ڈبلیو ایم ڈی کے جوڑ کر تیار کیے جانے والے حصوں کو، ان کی ڈیلیوری کے نظام کو یا متعلقہ مواد کو عام قسم کے سامان میں چھپایا جا سکتا ہے اور انہیں زمینی، ہوائی یا سمندری راستوں کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ انہیں نقد، کرپٹو کرنسی، یا وائر ٹرانسفر کے ذریعے رقم وصول کر کے فروخت کیا جا سکتا ہے۔ یا انہیں کسی ایسے شخص کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے جو اِن کے بارے میں خصوصی علم یا مہارت رکھتا ہو۔
اس سال ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے والے پرالیفریشن سکیورٹی انشی ایٹو (پی ایس آئی) نامی پروگرام کی بیسویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس پروگرام میں متعلقہ ممالک کے لیے ڈبلیو ایم ڈی کے پھیلاؤ کو چاہے وہ جس شکل میں بھی ہو، روکنے یا دورانِ منتقلی پکڑنے کا طریقہ کار بیان کیا گیا۔ پی ایس آئی میں پھیلاؤ کے بارے میں معلومات کا تبادلہ کرنے کے ساتھ ساتھ پھیلاؤ کو روکنے اور متعلقہ ممالک کی صلاحیتوں اور اختیارات کو بڑہانے کے بارے میں بہترین طریقہائے کار بھی بیان کیے گئے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے انسداد پھیلاؤ کے پروگراموں کے دفتر کے ڈائریکٹر تھامس زرزیکی نے شیئرامیریکا کو بتایا کہ “یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم سب مل کر کام کریں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ [ڈبلیو ایم ڈی] ہتھیاروں کے پھیلانے والوں کے لیے دنیا میں کوئی محفوظ جگہ نہ رہے۔
30 مئی کو جمہوریہ کوریا اُن ممالک کی چوتھے اعلٰی سطحی سیاسی اجلاس کی میزبانی کرے گا جو پی ایس آئی کے ہتھیاروں کو پکڑنے کے اصولوں کے بیان کی توثیق کرکے اس پروگرام میں شامل ہو چکے ہیں۔ پی ایس آئی کی توثیق کرنے والے ممالک مندرجہ ذیل وعدے کرتے ہیں:-
- اپنی صلاحیتوں اور قومی اور بین الاقوامی اختیارات کے مطابق ڈبلیو ایم ڈی کو منتقلیوں کے دوران پکڑنا۔
- دوسرے ممالک تک جلدی سے معلومات پہنچانے کے لیے طریقہائے کار وضح کرنا۔
- ڈبلیو ایم ڈی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قوانین اور پالیسیوں کو مضبوط بنانا۔
2003 میں پولینڈ کے شہر کراکو میں شروع کیے جانے والے اس پروگرام میں توثیق کرنے والے ممالک کی تعداد 11 تھی جو اب بڑھکر 106 ہو چکی ہے۔

امریکہ پی ایس آئی کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ اس پروگرام کو ڈبلیو ایم ڈی کے پھیلاؤ کو روکنے کی بین الاقوامی کوششوں میں بنیادی مقام حاصل ہے۔ اس کے تحت رکن ممالک اپنی وہ مہارتیں اور تربیت کاری کی صلاحیتیں ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں جن کی انہیں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ یا کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن جیسے معاہدوں اور سمجھوتوں کے تحت اُن پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اعلٰی سطحی سیاسی اجلاس پانچ سال میں ایک مرتبہ ہوتا ہے اور ایشیا میں یہ اجلاس پہلی مرتبہ ہونے جا رہا ہے۔ اس اجلاس میں رکن ممالک ماضی کی کامیابیوں کا جائزہ لیں گے، ڈبلیو ایم ڈی کے خطرات کی بدلتی ہوئی صورت حال پر غور کریں گے اور مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی منصوبہ بندی کریں گے۔
زرزیکی بتاتے ہیں کہ اس اجلاس میں امریکی عہدیدار مندرجہ ذیل امور پر کام کریں گے:-
- یہ جائزہ لیں گے کہ نئی اور ابھرتی ہوئی ٹکنالوجیاں کس طرح ڈبلیو ایم ڈی کے خطرات میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
- اُن ممالک کے لیے پی ایس آئی کے فوائد کو اجاگر کریں گے جنہوں نے ابھی تک اس کی توثیق نہیں کی۔
- مستقبل کی کثیر الجہتی مشقوں کو بہتر پیش گوئی کے قابل اور پائیدار بنا کر پی ایس ائی کی مسلسل کامیابی کو یقینی بنائیں گے۔
اس اجلاس کے بعد جمہوریہ کوریا 31 مئی سے یکم جون تک ‘ ایسٹرن اینڈیور 23’ کے نام سے ایک تربیتی مشق کی میزبانی کرے گا۔ اس مشق میں سمندری راستوں سے لے جائے جانے والے ڈبلیو ایم ڈی پکڑنے کی تربیت پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ یہ کثیرالجہتی مشق پی ایس آئی کی ایشیا اور بحرالکاہل میں باری باری ہونے والیں سالانہ مشقوں کا حصہ ہے اور اس میں آسٹریلیا، جاپان، نیوزی لینڈ، جمہوریہ کوریا، سنگاپور اور امریکہ شرکت کریں گے۔
PSI Exercise 8th Fortune Guard. August 8-12, 2022. Honolulu, Hawaii. Table Top and live exercises have allowed to enhance capabilities, understanding, and coordination across the APER region in relation to counter-proliferation activities. pic.twitter.com/VTupRcFvCT
— Proliferation Security Initiative (@ProliferationI) August 16, 2022
امریکہ اور پی ایس آئی میں شامل دیگر ممالک نے ڈبلیو ایم ڈی کے پھیلاؤ کو ختم کرنے اور اسے روکنے کی تیاری کے لیے حال ہی میں دیگر کئی ایک ورکشاپیں اور مشقیں منعقد کی ہیں جن میں ہوائی، مراکش، شمالی مقدونیہ، فلپائن اور سنگاپور میں ہونے والیں ورکشاپیں اور مشقیں بھی شامل ہیں۔
سنگاپور کے دفاع کے سینیئر وزیر مملکت ذکی محمد نے اکتوبر 2021 میں پی ایس آئی کی تربیت کی میزبانی کے بعد کہا کہ ڈبلیو ایم ڈی کے پھیلاؤ کا منظر نامہ کچھ اس طرح کا ہے جس میں “کوئی بھی ملک اتنے مختلف قسم کے چیلنجوں سے اکیلا نہیں نمٹ سکتا۔ مجموعی طور پر یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہم سب کے ملک اکٹھے مل کر کام کریں تاکہ پھیلاؤ کے خاتمے سے متعلق توانا مباحثوں اور مضبوط طریقہائے کار کے ذریعے اپنے خطے اور اپنے ممالک کی حفاظت اور سلامتی کو برقرار رکھا جا سکے۔”