ایک آدمی فون کو دیکھنے والے بچوں کے قریب کھڑا انہیں دیکھ رہا ہے (© Rajanish Kakade/AP Images)
گوگل کے سی ای او سندر پچائی کا شمار اُن بہت سے بھارتی نژاد امریکیوں میں ہوتا ہے جو اپنی محنت کی بدولت امریکہ کی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کے سربراہ بنے۔ اِس تصویر میں بچائی 8 مارچ 2019 کو ممبئی، بھارت میں بچوں کو پڑھنے کا ایک نیا ایپ دکھا رہے ہیں۔ (© Rajanish Kakade/AP Images)

سندر پچائی بھارت کے شہر چنئی میں دو کمرے کے اپارٹمنٹ میں پلے بڑھے۔ 12 برس کی عمر میں انہیں اپنا پہلا فون ملا جس سے اِن میں ٹیکنالوجی سے لگاؤ، تبادلہ خیالات اور دنیائے علم کے اُس دروازے کے بارے میں شوق پیدا ہوا جس  سے داخل ہونے کی اُن کے والدین نے اُن کی ہمت افزائی کی تھی تاکہ وہ علم حاصل کر سکیں۔

انہوں نے خارگپور میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور بعد میں امریکہ کی سلیکون ویلی کے وسط میں واقع سٹینفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ پچائی 2004 میں گوگل میں شامل ہوئے اور 2015 میں ان کو گوگل کا چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر کیا گیا۔

پچائی اب اربوں ڈالر کی کمپنی میں ہزاروں ملازمین کے سربراہ ہیں۔ اُن کا شمار اُن بھارتی نژاد امریکیوں میں ہوتا ہے جو امریکہ کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی سربراہی کر رہے ہیں اور جن کے خیالات ہماری گردوپیش کی دنیا کی صورت گری کر رہے ہیں۔

گزشتہ برس دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں بھارتی طالبعلموں نے امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ ویزے حاصل کیے۔ یہ امر اُن کی کامیابیوں کا مظہر ہے۔ ستمبر 2022 میں نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے نے اعلان کیا کہ وہ  بھارتی طلباء کو ریکارڈ تعداد میں یعنی 82,000 ویزے جاری کر چکا ہے۔

سکرین پر دکھائی دینے والے کرہ ارض کے نقشے کے سامنے کھڑا ایک آدمی تقریر کر رہا ہے (© Elaine Thompson/AP Images)
6 مئی 2019 کو سی ایٹل میں مائکرو سافٹ کی سافٹ ویئر ڈویلپروں کی ‘بِلڈ’ نامی سالانہ کانفرنس میں مائکرو سافٹ کے سی ای او ستیا ناڈیلا تقریر کر رہے ہیں۔ (© Elaine Thompson/AP Images)

بچائی کی طرح یہ بھارتی طالبعلم امریکہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اپنی خوابوں کی تعبیر پانے سے قبل بھارت میں اٹھائی گئیں اپنی بنیادوں کے بل بوتے پر ترقی کرتے ہیں۔ امریکہ کی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی قیادت کرنے والے  بھارتی نژاد امریکیوں میں مندرجہ ذیل بھارتی نژاد امریکی سی ای اوز بھی شامل ہیں:-

  • ریواتھی ایڈویتھی 2019 سے ‘فلیکس’ نامی ٹیکنالوجی مینو فیکچرنگ اور ڈیزائن کمپنی کی سی ای او کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ 30 ممالک میں پھیلے عملے کی سربراہ ہیں۔ ایڈویتھی کہتی ہیں< کہ “امریکی خواب کا تعلق محنت کرنے اور خطرات مول لینے سے ہے۔ اگر آپ محنت کریں گے اور آپ اپنے کام کے ماہر ہیں تو پھر آپ کو وہ سب مواقع ملیں گے جن کے آپ مستحق ہیں۔”
  • اروِند کرشنا 30 برس سے آئی بی ایم میں کام کر رہے ہیں۔ وہ مصنوعی ذہانت، کوانٹم کمپیوٹنگ اور بلاک چین جیسے ٹیکنالوجی کے ابھرتے ہوئے نئے شعبوں میں جدت طرازی کو فروغ دینے میں مدد کر رہے ہیں۔ وہ 2020 میں آئی بی ایم کے سی ای او بنے۔
  • سنجے مہروترا ‘سین-ڈِسک’ کمپنی کے شریک بانی ہیں۔ آج کل وہ سیمی کنڈکٹر اور مائکروچِپ ڈیزائن کرنے والی کمپنی ‘مائکرون ٹیکنالوجی’ کے سی ای او ہیں۔
فیکٹری کے ماڈل کے ارد گرد کھڑے لوگوں کا گروپ فوٹو (© Mandel Ngan/AFP/Getty Images)
27 اکتوبر 2022 کو سیرا کیوز، نیویارک میں مائکرون ٹیکنالوجی کے سی ای او، سنجے مہروترا [بائیں جانب] صدر بائیڈن سے ملاقات کر رہے ہیں۔ (© Mandel Ngan/AFP/Getty Images)
  • ستیہ ناڈیلا نے 1992 میں مائکروسافٹ میں شمولیت اختیار کی اور 2014 میں سی ای او بننے سے قبل کمپنی کے آن لائن خدمات کے ڈویژن کے لیے تحقیق و ترقی کے کام کی قیادت کی۔
  • شانتانو نارائن  نے 1998 میں ایڈوبی کے انجنیئرنگ اور ٹیکنالوجی کے گروپ میں کام کرنا شروع کیا اور 2007 میں کمپنی کے سی ای او بنے۔ اُن کی پاس پانچ پیٹنٹوں کی مالکیت ہے۔
  • راگھو راگھورام 2003 میں کلاؤڈ کمپیوٹنگ ورچولائزیشن کمپنی ‘وی ایم ویئر’ میں شامل ہوئے اور آج کمپنی کے سی ای او کی  حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔
سر کے اوپر تک ہتھوڑی اٹھائے ہوئے ایک عورت اور مسکراتے اور تالیاں بجاتے ہوئے دیگر لوگ (© Brendan McDermid/Reuters)
آریسٹا نیٹ ورکس کی صدر اور سی ای او جئے شری الل کی (درمیان میں) 6 جون 2014 کو نیویارک سٹاک ایکسچینج میں کمپنی کے حصص کی خرید و فروخت کے آغاز کے وقت کی تصویر۔ (© Brendan McDermid/Reuters)

یہ نامور بھارتی نژاد امریکی، امریکہ اور بھارت کے درمیان قریبی ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کی مثال ہیں۔ دوںوں ممالک کے مشترکہ مفادات میں جمہوریت کے ساتھ وابستگی اور بحر ہند و بحرالکاہل کے خطے اور اس سے باہر آزاد تجارت اور سرمایہ کاری کے ذریعے عالمی سلامتی، استحکام اور خوشحالی کو فروغ دینا شامل ہے۔

امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ 2021 میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت 157 ارب ڈالر کی ریکارڈ مالیت تک پہنچ گئی۔

دسمبر 2022 میں امریکہ میں بھارت کے سفیر ترنجیت سنگھ سندھو نے پچائی کو بھارت کے اعلٰی ترین اعزازوں میں شمار ہونے والا اعزاز پدم بھوشن دیا۔ انہوں نے پچائی کے سفر کو “متاثر کن” قرار دیا اور کہا کہ پچائی نے بھارت کی عالمی جدت طرازی میں سرانجام دی جانے والیں خدمات پر مہر ثبت کرتے ہوئے امریکہ اور بھارت کے اقتصادی روابط کو مضبوط بنایا۔

پچائی امریکہ میں انہیں کامیابی کی راہ پر ڈالنے کا سہرا اپنے خاندان کے علم کے حصول کے ساتھ لگاؤ اور اپنے بھارتی ورثے کے سر باندھتے ہیں۔

یہ اعزاز پانے کے بعد انہوں نے کہا کہ “بھارت میرے [وجود] کا حصہ ہے۔ میں جہاں جاتا ہوں اسے اپنے ساتھ لے کر جاتا ہوں۔”