شیوانی نے ابھی تک اپنے پہلے نوزائیدہ بچے کا نام نہیں رکھا۔ بھارت کی ریاست جھار کھنڈ کے رانچی ڈسٹرکٹ ہسپتال میں دستیاب سہولتوں کی وجہ سے اب اُن کے شوہر، امیت اور شیوانی کے پاس اپنی صحت کی بحالی اور بچے کے نام کے بارے میں اطمینان سے سوچنے کا کافی وقت ہے۔
جس ہسپتال میں اُن کا بچہ پیدا ہوا ہے اس ہسپتال نے امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے [یوایس ایڈ] اور بھارت کی صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے تیار کردہ پروگرام میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔
اس پروگرام کے تحت رانچی ڈسٹرکٹ ہسپتال جیسے اُن ہسپتالوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جن میں زیادہ تعداد میں مریض آتے ہیں۔ اس کے علاوہ جھارکھنڈ سمیت اُن ریاستوں پر بھی توجہ دی جا رہی ہے جہاں ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کو صحت کی دیکھ بھال کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
اس پروگرام کے تحت ایک ایسا ماڈل تیار کیا گیا ہے جس میں کام کرنے کے معیاری طریقے، جانچ پڑتال کی فہرستیں، آڈٹ کے فارم اور معیار کو بہتر بنانے کی باقاعدہ میٹنگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ابتدائی نتائج کے مطابق مردہ بچوں کی پیدائش اور پیدائش کے بعد بچوں کی اموات میں 20 فیصد کمی آئی ہے۔ اِس پیشرفت نے پورے ملک میں ہسپتالوں کو یہ طریقہائے کار اپنانے کی جانب راغب کر دیا ہے۔
جتنی زیادہ معلومات ہوںگی اتنی اچھی طبی امداد ہوگی
اس پروگرام سے پہلے رانچی کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کا عملہ کم پڑ جاتا تھا۔ درپیش مسائل کو دستاویزی شکل دینا نہ ہونے کے برابر تھا۔
2018 سے نرس، سسٹر تھریسا اور ہسپتال کے دیگر عملے کے اراکین نے لیبر روم میں مریضوں کی دیکھ بھال کے بارے میں لیکچروں میں شرکت کی اور تربیت حاصل کی۔ بھارت کی حکومت نے عملے کے لوگوں کو تربیت دی جبکہ یو ایس ایڈ نے تکنیکی مدد، ملازمتوں میں مدد اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے وسائل تک رسائی کی فراہمی میں ہاتھ بٹایا۔
سسٹر تھریسا نے بتایا کہ “ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک سال میں [ہم] نے مریضوں کے اطمینان کے حوالے سے 90% کامیابی حاصل کر لی ہے۔”

ہسپتال کی نرسیں اب نئے والدین کو “کنگرو ماں کی طرح بچوں کو سینے سے لگائے رکھنے” جیسی مہارتیں سکھا رہی ہیں۔ کنگرو ماں کی طرح نوزائیدہ بچوں کی مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگا کے رکھتی ہیں جس سے بچے کا جسم ماں کے جسم کو چھوتا ہے اور بچے کے جسم کا درجہ حرارت برقرار رہتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کے خصوصی یونٹ میں چھوٹے اور بیمار نوزائیدہ بچوں کا یہ ایک اہم طریقہ علاج ہے۔
ہسپتال کے عملے کے لوگ والدین کو بتاتے ہیں کہ نوزائیدہ بچوں کو کیسے محفوظ طریقے سے کھانا کھلانا، پکڑنا، صاف کرنا، کپڑے تبدیل کرنا اور اُن کی دیکھ بھال کرنا ہے۔ اس تربیت کے ذریعے اور چھوٹے اور حتٰی کہ بیمار نوزائیدہ بچوں کو ڈیلیوری ریکوری روم کے قریب منتقل کرنے میں والدین عملی طور پر اس وقت بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں جب بچے ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔
نوزائیدہ بچوں کی خصوصی دیکھ بھال کے یونٹ میں نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال میں اُن کی ماؤں اور والدین کو شامل کرنے سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:-
- بچوں کو جلدی گھر بھیجنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
- بچے اور ماں کے درمیان تعلق پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
- والدین جب بچوں کو گھر لے جاتے ہیں تو اُن میں اپنے نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال کرنے کے بارے میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
نئے والدین کو شامل کرنا اور اُن کو دیکھ بھال کی مہارتیں سکھانے اور اِن کا عملی مظاہرہ کر کے دکھانے سے شیوینی اور امیت جیسے نئے والدین کو ہسپتال میں قیام کے دوران اپنے نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال میں فعال کردار ادا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ شیوانی نے کہا کہ “یہاں سب کو مدد مل رہی ہے اور سب ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔”.
اِس مضمون کا ایک ورژن یو ایس ایڈ پہلے ہی شائع کر چکا ہے۔ یو ایس ایڈ کا مکمل ورژن یہاں پڑھیے۔