وینا کماراویل نے چنئی، بھارت میں اپنے تین بیوٹی سیلونوں کے کاروبار کو پھیلانے کے لیے جن پہلے 53 بنکوں سے قرض لینے کے لیے رجوع کیا اُن سب نے نفی میں جواب دیا۔

مگر 54ویں بنک نے ہاں میں جواب دیا۔

آج، کم وبیش ایک دہائی بعد ‘نیچرلز’ کے نام سے وینا کماراویل اور اُن کے شوہر نے جو کاروبار شروع کیا تھا اُس کی بھارت بھر میں 600 سے زائد شاخیں ہیں۔ اِن میں سے 350 سے زائد خواتین کی ملکیت ہیں۔

کماراویل نے چنئی میں امریکی قونصلیٹ میں ہونے والے ایک فورم کو بتایا کہ یہ تمام انکار “ہمیں روک نہ سکے۔ ہم اپنے خواب کی تعبیر پانے میں لگے رہے۔” اس فورم کا موضوع اُس کردار سے تھا جو خواتین کو نئے کاروبار شروع کرنے اور اُنہیں بڑہانے میں سرپرست ادا کر سکتے ہیں۔

یہ تقریب اُن تقریبات میں سے ایک تھی جو 28 تا 30 نومبر بھارت کے شہر حیدرآباد میں ہونے والی عالمی کاروباری نظامت کاری کی چوٹی کانفرنس میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے امریکہ اور بھارت کی حکومتوں نے منعقد کی تھی۔ امید ہے کہ اس کانفرنس میں 1,500  نئے کاروباری نظامت کار، رضاکارانہ طور پر سرمایہ کاری کرنے والے، اور سرکاری اور نجی شعبے کے لیڈر شرکت کریں گے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ٹرانسفارمنگ انڈیا یعنی بھارت کو بدلنے کے قومی ادارے [نیتی آیوگ] نے سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے ایسے مقابلے منعقد کیے ہیں جن میں جیتنے والوں کو “گولڈن ٹکٹوں” سے نوازا گیا۔

کاروباری نظامت کاری کے ذریعے غربت کا خاتمہ

بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ آبادی کا 22 فیصد حصہ غربت میں زندگی گزار رہا ہے۔ حکومت ایسے کاروبار شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہے جو ملک کی حفظان صحت، توانائی، زراعت اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کی نئی سوچیں لے کر سامنے آئیں تاکہ کروڑوں لوگ ملک کے بڑھتے ہوئے درمیانے طبقے میں شامل ہونے کے لیے کمربستہ ہوسکیں۔

عورتیں، جو بہت سے خاندانوں کی روزی کا ذریعہ ہونے کے باوجود کاروباری مالکان میں کم نمائندگی رکھتی ہیں، خصوصی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ اس کا ثبوت اس کانفرنس کا عنوان “خواتین پہلے، خوشحالی سب کے لیے” ہے۔

کانفرنس کے شرکاء کے لیے حیدرآباد میں کم لاگت زراعت اور حفظان صحت کی جدت طرازیوں سے لے کر بالی وڈ کے کاروبار تک، درجنوں مباحثے اور ورکشاپیں فوری طور پر دستیاب ہیں۔  بلکہ کاروباری نظامت کاروں کے لیے ایک ایسی ماسٹر کلاس کا بندوبست بھی کیا گیا ہے جس میں اُنہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں سے کیسے سبق سیکھ سکتے ہیں۔

ٹکنالوجی کی نئی کمپنیاں سمت کی نشاندہی کرتی ہیں

بنگلورو جیسے شہرنئی کمپنیوں کے لیے مضبوط نیٹ ورکوں اور اعانتی نظاموں کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ بنگلورو انفوسِس، وائپرو اور ٹکنالوجی کی دیگر بڑی بڑی کمپنیوں کی جائے پیدائش ہے۔

ہارورڈ بزنس سکول کے پروفیسر تارُن کھنہ کا کہنا ہے کہ سلیکون ویلی کی تعمیر میں مدد کرنے والے بھارتی نژاد امریکی کاورباری نظامت کار، ابھرتے ہوئے بھارتی کاروباری نظامت کاروں کے سرپرستوں اور بعض اوقات سرمایہ کاروں کے طور پر کام کرنے کی خاطر اکژ بھارت میں لوگوں سے رابطے کرتے رہتے ہیں۔ “یہ تعلق مضبوط ہے۔ بیرون ملک رہنے والے [بھارتی نژاد] لوگ سرمائے کی فراہمی، علم اور سرپرستی فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔”

کھنہ نے 2015 کے نیتی آیوگ کے ایک پینل کی سربراہی کی جس کے نتیجے میں اُن طریقوں کے بارے میں سفارشات مرتب کی گئیں جن سے حکومت کاروباری نظامت کاری اور اختراعات کو بڑہاوا دے سکتی ہے۔ ان سفارشات میں تعلیمی نظام میں اصلاحات، انعاماتی مقابلے، کاروبار شروع کرنے میں حائل مشکلات میں کمی، اور ملکِ دانش کے حقوق کو مضبوط بنانا شامل تھا۔ اس پینل نے اس بات کو اجاگر کیا کہ خواتین کو اپنے چھوٹے کاروباروں کو وسعت دینے میں دقت پیش آتی ہے۔

کھنہ کا کہنا ہے، “بھارت کو ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ ہمارے ہاں کاروباری نظامت کاری کے بوسٹن کے علاقے یا سلیکون ویلی جیسے زبردست علاقے بھی ہیں اور ایسے علاقے بھی ہیں جہاں شدید غربت پائی جاتی ہے۔”

سرپرستوں سے اچھے مشورے حاصل کرنا

ماحول دوست خوردنی تیل پیدا کرنے والی ‘گانیا ایگرو پروڈکٹس’ نامی کمپنی کی بانی، تھارا جیان نے چنئی ورکشاپ کو بتایا کہ جب انہوں نے اشیائے خوردونوش کے مردوں کی اکثریت  والے کاروبار میں قدم رکھا تو لوگوں کا ” میرے ساتھ رویہ، سنجیدہ نہیں تھا۔” انہوں نے کاروباری مذاکرات کا فن اپنے دو سرپرستوں سے سیکھا جن میں سے ایک بھارتی اور دوسرا امریکی تھا۔ انہوں نے “ہمیں کاروباری دنیا کا ہر ایک نظریہ سکھایا۔”

وینا کماراویل کہتی ہیں کہ نئے کاروباری نظامت کار “بڑےجذبے سے اپنا کاروبار شروع کرتے ہیں” مگر اُن کا اعتماد اُس وقت ختم ہونا شروع ہوجاتا ہے جب وہ سرمایہ حاصل نہیں کر پاتے۔ “یہی وہ موقع ہوتا ہے جب آپ کو کسی سرپرست کی تلاش شروع کر دینا چاہیے۔”