Aerial view of ship and natural gas plant (© Lindsey Janies/Bloomberg/Getty Images)
ٹیکساس اور لوزیانا کی سرحد پر واقع شینیئر انرجی کمپنی کے ٹرمینل سے ایک ٹینکر نما بحری جہاز مائع قدرتی گیس لے کر روانہ ہو رہا ہے۔ ایل این جی سے کسی بھی ملک کی توانائی کی رسد میں تنوع پیدا ہو جاتا ہے۔ (© Lindsey Janies/Bloomberg/Getty Images)

ایک امریکی کمپنی نے بحری جہاز کے ذریعے مخففاً ایل این جی کہلانے والی مائع قدرتی گیس کی پہلی کھیپ بھارت  پہنچا دی ہے۔

بھارت کے وزیر برائے پٹرولیم و قدرتی گیس دھرمیندرا پرادھان نے ممبئی کی جنوبی بندرگاہ دابھول پہنچنے والی اس کھیپ کو “توانائی کے شعبے میں بھارتی اور امریکی شراکت اور تجارت میں نئی شروعات” قرار دیا ہے۔

امریکی دفتر خارجہ کے ٹام ویجڈا کے مطابق دونوں ممالک امید کرتے ہیں کہ اس سے متنوع توانائی کی معیشت میں سرمایہ کاری کے سلسلے میں آسانیاں پیدا ہوں گی۔ انہوں نے کہا، “امریکہ علاقائی اور عالمی سطح پر توانائی اور سلامتی کے مشترکہ مقاصد کی ترویج میں بھارت کو ایک شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔”

قدرتی گیس سے بجلی کے پلانٹ چلتے ہیں اور [سردیوں میں] گھروں کو گرم رکھا جاتا ہے۔ روایتی طور پر پیداکار اسے پائپ لائنوں کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ تاہم آج ٹیکنالوجی نے قدرتی گیس کو مائع حالت میں دنیا میں کسی بھی جگہ پہنچانے کو ممکن بنا دیا ہے۔ امریکہ سے آنے والی قدرتی گیس کی حالیہ کھیپ کو دباؤ کے ذریعے مائع حالت میں تبدیل کیا گیا اور خصوصی قسم کے جہازوں کے ذریعے اسے محفوظ طریقے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا گیا ہے۔

متنوع توانائی

کسی ملک کی مائع قدرتی گیس درآمد کرنے کی اہلیت سے اس ملک کی توانائی کی سیکورٹی کو مضبوط  بناتی ہے۔ اس طرح ممالک توانائی مختلف ذرائع سے حاصل کر سکتے ہیں اور وہ کسی واحد ذریعے یا فراہم کنندہ کا محتاج ہوکر نہیں رہ جاتے۔

Two men shaking hands (© Money Sharma/AFP/Getty Images)
بھارت کے پیٹرولیم اور قدرتی گیس کے وزیر دھرمیندرا پرادھان (بائیں) امریکہ کے توانائی کے وزیر رِک پیری سے ملاقات کر رہے ہیں۔ (© Money Sharma/AFP/Getty Images)

امریکہ اور بھارت دنیا بھر میں توانائی کی سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے اور دونوں ممالک میں توانائی کی معیشتوں کو متنوع بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ امریکہ اب دنیا بھر میں ایل این جی برآمد کر رہا ہے جس کی بڑی مقدار ایشیا (جنوبی کوریا، چین اور جاپان)، براعظم ہائے امریکہ (میکسیکو، چلی اور ارجنٹائن)، یورپ (سپین، پرتگال، پولینڈ اور لیتھوینیا) اور مشرق وسطیٰ (اردن، کویت اور مصر) کو بھیجی جا رہی ہے۔

بھارت کو بھیجی جانے والی ایل این جی کی حالیہ کھیپ بھارتی کمپنی گیل لمیٹڈ اور امریکی ریاست ٹیکساس کی شینیئر انرجی کے درمیان 20 سالہ معاہدے کا حصہ ہے۔ ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے 28 مارچ کو بھارتی وزیر دھرمیندرا پرادھان کے ساتھ ملاقات میں کہا، “بھارت کا شمار دنیا کی خوشحال معیشتوں میں ہوتا ہے اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو توانائی تک رسائی درکار ہوتی ہے۔”

شینیئر انرجی فروری 2016 سے ریاست لوزیانا میں اپنے سیبائن پاس نامی مرکز سے ایل این جی برآمد کر رہی ہے۔

مارچ 2018 میں ریاست میری لینڈ میں ڈومینین انرجی کے کوو پوائنٹ کے نام سے کام شروع کرنے والا مرکز امریکہ کا ایل این جی کا دوسرا بڑا مرکز بن گیا ہے۔ یہ ادارہ بھی گیل لمیٹڈ کو ایل این جی فراہم کرے گا۔

امریکی وزیر توانائی رک پیری کا اندازہ ہے کہ امریکہ میں زیرتعمیر ایل این جی کے نئے مراکز سے دنیا بھر میں شراکت داروں کو 10 ارب کیوبک فٹ ایل این جی روزانہ فراہم کی جا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “ہم صرف توانائی ہی برآمد نہیں کر رہے بلکہ ہم آزادی بھی برآمد کر رہے ہیں۔”