بھوک ہی نہیں، ناکافی غذائیت کے خلاف جدوجہد بھی ضروری ہے

روزانہ کم و بیش 81 کروڑ 50 لاکھ افراد بھوکے رہتے ہیں۔ اس تعداد کے دو گنے سے بھی زیادہ لوگوں کو دو سے زیادہ وقت کا کھانا تو میسر ہوتا ہے مگر وہ درست خوراک نہیں کھاتے۔ ناکافی خوراک والے افراد میں بہت کم کھانے والوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بہت زیادہ کھاتے ہیں۔

شیرخوار اور کم عمر بچوں پر ناکافی غذائیت کے مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں نصف اموات کی وجہ ناکافی غذائیت ہوتی ہے۔

15 کروڑ 50 لاکھ  بچوں کی نشوونما میں نقائص پیدا ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنی عمر سے بہت چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں خاطرخواہ مقدار میں سبزیاں اور نمکیات نہیں مل پاتے جس سے ان کی جسمانی و ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔

برطانوی ماہرِ معاشیات اور غذائی امور کے ماہر لارنس حداد کہتے ہیں، ” ناکافی غذائیت کا تعلق محض ‘کم خوراکی’ سے ہی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب صحیح قسم کی خاطرخواہ خوراک کا میسر نہ ہونا اور غلط قسم کی خوراک کا بڑی مقدار میں استعمال بھی ہے۔”

Lawrence Haddad bending down and smiling at children holding flowers (World Food Prize)
لارنس حداد مناسب غذائیت کی قدروقیمت کے بارے میں دنیا بھر کی حکومتوں اور عوام میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (World Food Prize)

امریکہ میں دو دہائیوں تک خوراک سے متعلق پالیسی پر تحقیق اور اچھی غذائیت کے لیے کام کرنے والے حداد اور اقوام متحدہ کے زیراہتمام غذائیت سے متعلق ایک بڑے اقدام کی قیادت کرنے والے برطانوی معالج،  ڈیوڈ نبیرو نے سال 2018 کا 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر کا خوراک کا عالمی انعام حاصل کیا ہے۔

یہ دونوں اعزاز یافتگان نوبیل انعام یافتہ ماہرِ زراعت، آنجہانی نورمن بورلوگ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ بورلوگ نے ‘سبز انقلاب’ میں قائدانہ کردار ادا کیا اور خوراک کے حصول میں دنیا کی مدد کی۔ انہوں نے 1986 میں اس انعام کی بنیاد رکھی۔ مختلف کمپنیوں اور اداروں کے تعاون سے یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ 68 سالہ نبیرو نے اقوام متحدہ کی معاونت سے غذائیت بڑھانے کے پروگرام کی قیادت کی۔ انہوں نے عالمی سطح پر اپنے طبی کام کا آغاز ‘سیو دی چلڈرن’ سے کیا اور عراق میں کرد بچوں کے ساتھ ساتھ نیپال میں بچوں کی طبی دیکھ بھال کے شعبے میں خدمات سر انجام دیں۔ عالمی ترقی کے برطانوی محکمے میں انہوں نے غذائیت کو ایک ترجیح قرار دینے میں مدد کی۔

59 سالہ حداد نے سٹین فورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد واشنگٹن میں قائم ‘انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ’ نامی تھنک ٹینک میں غذائیت سے متعلق شعبے کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔ برطانیہ میں ‘انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ سٹڈیز’ کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے غذائیت سے متعلق عالمگیر رپورٹ تیار کی جس میں اس مسئلے کے حل کی کاوشوں کے حوالے سے ممالک کی درجہ بندی کی۔

وہ کہتے ہیں، ”بڑا مسئلہ یہ تھا کہ غذائیت ہر شخص کا کام ہے مگر یہ کسی کی ذمہ داری نہیں ہے۔ غذائیت کی کوئی وزارت نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری زراعت، صحت اور عموماً بہبودِ خواتین کے شعبوں کے درمیان پھنسی رہتی ہے۔”

People standing in a dirt field talking (World Food Prize)
بائیں طرف کھڑے ڈاکٹر ڈیوڈ نبیرو نے اقوام متحدہ اور صحت کے عالمی ادارے کے صحت اور غذائیت سے متعلق پراجیکٹوں کی دو عشروں تک قیادت کی۔ (World Food Prize)

2016 سے وہ سرکاری و نجی شراکتوں کو فروغ دینے والے بہتر غذائیت کے لیے عالمگیر اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ غذائیت کے شعبے میں بہت سے لوگ کاروبار کو دشمن سمجھتے ہیں اور دیگر کاروبار کو ہی اس مسئلے کا واحد حل سمجھتے ہیں۔”

حداد کے لیے غربت کوئی نئی چیز نہیں۔ وہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا لبنانی تارک وطن تھے۔ ان کا خاندان نسلی عصبیت پر مبنی قوانین سے بچنے کے لیے 1961 میں لندن چلا آیا۔ حداد کہتے ہیں، ” نو برس تک ہمارا انحصار سرکار کی طرف سے ملنے والی امداد پر رہا۔” انہیں سکول کے کیفے ٹیریا میں مفت کھانے کے لیے مخصوص رنگ کا ٹکٹ پیش کرنے پر ہونے والی شرمندگی آح بھی یاد ہے۔

وہ کہتے ہیں، ”مجھے اپنی وہ سوچ آج بھی یاد ہے کہ ‘اگر وہ صرف ٹکٹ کا رنگ ہی تبدیل کر دیتے تو یہ کوئی بڑی بات نہ ہوتی۔’ اس نے مجھے بہبود، وقار اور بدنامی اور لوگوں کو کمتری کا احساس دلائے بغیر” ان کی مدد کرنے کی اہمیت پر گہرا غوروفکر کرنے پر مجبور کیا۔

اعزاز یافتگان کے ناموں کا اعلان جون میں امریکی محکمہِ زراعت میں کیا گیا۔ اعزازات دینے کی تقریب 18 اکتوبر کو آئیووا کے ریاستی دارالحکومت میں ہوگی۔

2016 اور 2017 میں ‘خوراک کا عالمی اعزاز’ جیتنے والوں کے کارناموں کی بابت جانیے۔