فکری بلبلے کی شبیہہ کے نیچے ایک چینی طالب علم کا خاکہ۔ (State Dept./D. Thompson)
(State Dept./D. Thompson)

چین کی سب سے معزز یونیورسٹیوں میں شمار ہونے والی ایک یونیورسٹی نے اپنے منشور سے “آزادی فکر” کو خارج کر دیا ہے۔

شنگھائی میں فوڈن یونیورسٹی نے حال ہی میں ایک جملے کو ایسے الفاظ سے بدلا ہے جو “شی جن پھنگ کی سوچ” کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ اقدام چینی معاشرے میں اپنا اثر و رسوخ گہرا کرنے کی چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی کوششوں کا حصہ ہے۔

چین میں بادلوں والے نیلے آسمان کے پس منظر میں، ایک کثیرالمنزلہ عمارت۔ (© Aly Song/Reuters)
شنگھائی میں فوڈن یونیورسٹی کی نصابی عمارت۔ (© Aly Song/Reuters)

سی سی پی تحریر و تقریر کا پہلے ہی سے کڑا سنسر کرتی ہے بلکہ یہاں تک کہ اخبارات اور سوشل میڈیا میں (خاص) الفاظ پر پابندی عائد ہے۔ جیسے کہ فوڈان اور نانجنگ اور شانسی کی دو دیگر چینی یونیورسٹیوں نے حال ہی میں کیا ہے، یونیورسٹیوں کے منشور میں تبدیلیاں، جنرل سکریٹری شی جن پھنگ کی قیادت میں نصابی کنٹرول کو سخت کرنے کے ایک وسیع تر رجحان کا حصہ ہیں۔ پارٹی نے اُن ماہرین تعلیم کو بھی برطرف کر دیا جنہوں نے اس پر تنقید کی۔

ریڈیو فری ایشیا کی جانب سے پوسٹ کی جانے والی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ فوڈن یونیورسٹی کے طلبا ایک چھوٹے سے گروپ کی شکل میں کیفے ٹیریا میں جمع ہوئے اور انہوں نے منشور میں تبدیلیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ طلبا نے اپنے سکول کا ترانہ گایا جس میں “فکری آزادی” کا حوالہ دیا گیا ہے۔

طلبا نے منشور کی تبدیلی کے خلاف آواز اٹھا کر سزا کا خطرہ مول لیا۔ چین کے بارے میں کانگریس کے ایگزیکٹو کمشن کی، جو امریکی حکومت کا حصہ ہے، 8 جنوری کو جاری ہونے والی 2019ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، 2019ء میں کمیونسٹ حکام نے 50 طلبا اور حالیہ گریجوایٹوں کو بیجنگ میں محنت کشوں کے بہتر حقوق کی حمایت کرنے پر ہراساں کیا اور حراست میں لیا۔

طلبا کو کنٹرول کرنے کی اس طرح کی کوششیں چین میں خصوصی حساس نوعیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ ماضی میں طلبا بہت اہم مظاہروں کی قیادت کر چکے ہیں جن میں 1989ء میں تیاننمن کے اور حال ہی میں ہانگ کانگ کے مظاہرے شامل ہیں۔

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، “تیاننمن کی کاروائی کے بعد سے چینی حکومت اور پارٹی نے چینی شہریوں کو دھمکانے، سنسر کرنے اور یہاں تک کہ قید کرنے کے لیے بنائے گئے ایک مہنگے اور جامع آمرانہ نظام کو وسعت دی ہے۔”

فکری آزادی اور سیاسی اظہار کے خلاف چینی کمیونسٹ پارٹی کی کاروائیاں صرف یونیورسٹیوں تک ہی محدود نہیں۔ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں اور چینی طلبا اور سکالروں کی ایسوسی ایشنوں کے ذریعے، کمیونسٹ پارٹی دنیا بھر میں طلبا اور اساتذہ کو سنسر کرنے کا کام کرتی رہتی ہے۔ حتٰی کہ جب مغربی رسائل نے تبت جیسے حساس موضوعات کے بارے میں کچھ شائع کیا تو پارٹی نے مغربی تعلیمی رسائل کو بھی دھمکانے کی کوشش کی۔