امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق، عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) ہانگ کانگ میں آزادیوں کے خلاف کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جمہوری اداروں کو ختم کر رہا ہے اور عدلیہ پر دباؤ ڈال رہا ہے۔
وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے 31 مارچ کو محکمہ خارجہ کی ہانگ کانگ پالیسی ایکٹ کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا، “جیسے جیسے ہانگ کانگ کے بیجنگ کو حوالے کرنے کی پچیسویں ویں سالگرہ قریب آتی جا رہی ہے ویسے ویسے ہانگ کانگ کی آزادیاں کم ہوتی جا رہی ہیں اور پی آر سی اپنی حکمرانی کی گرفت کو مضبوط کرتا چلا جا رہا ہے۔ پی آر سی کی طرف سے روا رکھے جانے والے جبر کی وجہ سے ہانگ کانگ اور مین لینڈ چین کے شہروں کے درمیان فرق مٹتے جا رہے ہیں۔”
Democratic institutions, rule of law, and individual liberties form the bedrock on which vibrant societies grow. We stand with people in Hong Kong as they seek to uphold academic, cultural, and press freedoms. https://t.co/ufrm1xHitJ
— Secretary Antony Blinken (@SecBlinken) March 31, 2022
امریکی کانگریس میں پیش کی گئی رپورٹ میں مارچ 2021 اور مارچ 2022 کے درمیان پی آر سی کے مختلف اقدامات کا ایک خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اس خاکے میں ‘ چین- برطانیہ مشترکہ اعلامیے’ کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ کے حکام کی طرف سے ہانگ کانگ میں اٹھائے گئے وہ اقدامات بھی شامل ہیں جو لوگوں کے تحفظ شدہ حقوق اور آزادیوں پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔
جب پی آر سی نے یکم جولائی 1997 کو ہانگ کانگ پر دوبارہ خودمختاری حاصل کی تو اس وقت پی آر سی نے ہانگ کانگ کی اعلٰی درجے کی خود مختاری کا احترام کرنے اور ہانگ کانگ کے لوگوں کے بعض حقوق اور آزادیوں کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے برعکس پی آر سی اور ہانگ کانگ کے حکام نے جون 2020 کے قومی سلامتی کے قانون اور دیگر پالیسیوں کو بنیاد بناتے ہوئے ہانگ کانگ کے جمہوری اداروں کو ایک منظم انداز سے کمزور کیا، منتخب عہدیداروں کو نااہل قرار دیا اور پرامن مظاہرین اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔
2022 کی رپورٹ میں پی آر سی کی اُن پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جو ہانگ کانگ کی عدلیہ کے ساتھ ساتھ اس کے کاروباری ماحول کو بھی متاثر کررہی ہیں۔ گو کہ ہانگ کانگ کے مالیاتی نظام بہت سے معاملات میں مین لینڈ چین سے نمایاں طور پر مختلف ہیں، مگر رپورٹ میں کہا گیا ہے، “یہ فرق کم ہوتے جا رہے ہیں اور کاروبار اور قانون کی حکمرانی کے وہ خطرات جو پہلے مین لینڈ چین تک محدود تھے وہ اب ہانگ کانگ میں دن بدن بڑھتی ہوئی تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔”
رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران ہانگ کانگ میں سول سوسائٹی کے لیے گنجائش میں کمی آئی ہے اور رپورٹ کے نتائج بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والی کاروائیاں سیاسی میدان میں کی گئیں ہیں۔
تبدیلیوں کے ردعمل میں بلنکن نے 31 مارچ کو کہا، “بیجنگ بالآخر شہر کے بہت سے بہترین اور روشن دماغوں کو بھاگ جانے پر مجبور کر دے گا جس سے ہانگ کانگ کی ساکھ داغدار اور اس کی مسابقت کمزور ہو جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ہانگ کانگ کی آزاد، [اور] عالمی حیثیت کمزور ہوتی چلی جائے گی۔”

بلنکن نے کہا کہ دریں اثنا ہانگ کانگ کے حکام اپوزیشن کے سیاست دانوں، کارکنوں اور دیگر کو گرفتار کرنے اور مقدمات قائم کرنے کے لیے قومی سلامتی کے قانون میں دیئے گئے اختیارات کا استعمال کر ہے ہیں۔ ۔
رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ حکام نے جان بوجھ کر ووٹ دینے کے حق کو محدود کیا، آزادی اظہار اور اظہار رائے کی خلاف ورزی کی، اور بار بار آزاد میڈیا کو نشانہ بنایا۔ جون 2021 میں حکام نے اخبار ایپل ڈیلی کے دفاتر پر چھاپے مارے، قومی سلامتی کے قانون کی مبینہ خلاف ورزیوں پر صحافیوں اور انتظامیہ کے اراکین کو گرفتار کیا اور اس اخبار کے اثاثے منجمد کر دیئے۔ بعد میں یہ اخبار بند ہو گیا۔
حکام نے ضمانت کے لیے مقرر کڑی شرائط کو استعمال کرتے ہوئے کئی درجن افراد کو مہینوں تک حراست میں رکھا۔ استغاثہ نے غیر ملکی حکومتوں یا میڈیا کے اداروں کے ساتھ معمول کے میل جول رکھنے والے افراد کی ضمانت سے انکار کرنے کی بھی کوشش کی۔ اِن لوگوں میں ایک ایسا قانون ساز رکن بھی شامل تھا جسے غیر ملکی قونصل خانے سے دعوت نامہ موصول ہوا تھا۔
بلنکن نے کہا کہ امریکہ پی آر سی کی خراب پالیسیوں کے خلاف ہانگ کانگ کی حمایت کے لیے دنیا بھر کے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھے گا۔ انہوں نے کہا، “ہم پی آر سی سے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور وعدوں کی پاسداری کرنے کے ساتھ ساتھ ہانگ کانگ کے جمہوری اداروں، [اس کی] خود مختاری اور قانون کی حکمرانی کو ختم کرنا بند کرنے کے مطالبے کرتے رہیں گے۔”