چین کی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) یورپی حکومتوں اور اداروں پر اُن کے شہریوں کے آزادیِ تقریر کے حق کو سلب کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کرنے میں اور زیادہ دلیر ہو گئی ہے۔

یہ تو ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ سی سی پی چینی عوام کا سخت قسم کا سنسر کرتی ہے بلکہ حکومت (مخصوص) الفاظ پر پابندی لگانے کی حد تک چلی گئی ہے۔ دن بدن بیجنگ کی یورپینوں پر سیاسی اور اقتصادی دباؤ ڈالنے کی کوششوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یورپین چینی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔

سی سی پی کی سنسرشپ ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ ذیل میں یورپ میں بیجنگ کی سنسرشپ کی کوششوں کی چند ایک مثالیں دی جا رہی ہیں۔

سویڈن

لوگ پوسٹر لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (© Vincent Yu/AP Images)
ہانگ کانگ میں مرکزی عوامی حکومت کے رابطہ دفتر کے باہر مظاہرین گمشدہ کتب فروش گوئی منہائی کی حمایت کر رہے ہیں۔ (© Vincent Yu/AP Images)

سویڈن میں چین کے سفیر نے نومبر میں سویڈن کی ثقافت کی وزیر کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے چینی نژاد سویڈن کی گرفتار شدہ شہری کو ادبی انعام دیا تو اُن پر چین میں داخلے کی پابندی لگا دی جائے گی۔ بہرکیف سویڈن کی وزیر نے ادبی انعام دیا۔

سویڈن کے وزیر اعظم سٹیفان لوف وین نے 15 نومبر کو ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ سویڈن “اس قسم کی دھمکیوں میں کبھی نہیں آئے گا۔ کبھی بھی نہیں۔ حتمی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک سویڈن میں تقریر کی آزادی ہے۔”

اس سال کا ‘توخولسکی ایوارڈ’ گوئی منہائی کو دیا گیا۔ گوئی ترک وطن کے نتیجے میں سویڈن کی شہری بنیں۔ وہ آج کل ہانگ کانگ میں کتابوں کے ایک سٹور کی مالکہ ہیں اور چینی سیاست پر کتابیں شائع کرتی ہیں۔ چینی حکام نے گوئی کو اُس وقت گرفتار کیا جب وہ سویڈن کے ایک سفارت کار کے ہمراہ بیجنگ کا سفر کر رہی تھیں۔ یہ انعام جرمن مصنف کرٹ توخولسکی کے نام منسوب ہے جو 1930 کی دہائی میں نازی جرمنی سے فرار ہو کر سویڈن آ گئے تھے۔ یہ انعام ایسے مصنف یا ناشر کو دیا جاتا ہے جو زیادتیوں کا سامنا کر رہا/رہی ہو۔

جرمنی

سربراہ خاتون کی تصویر۔ (© Christof Stache, AP Images)
بویرین گرین پالیمنٹری گروپ کی سربراہ، مارگاریٹ باس۔ (© Christof Stache, AP Images)

سی سی پی نے اگست میں ایک جرمن وفد پر چین کا دورہ کرنے پر پابندی لگانے کی دھمکی دی جس کی ظاہری وجہ چینی حکومت کے ویغور مسلمانوں پر کیے جانے والے جبر پر وفد کے ایک رکن کی تنقید تھی۔ گو کہ جرمن پارلمینٹ، بنڈ یسٹاگ کے اراکین کو بالعموم ویزے مل جاتے ہیں مگر اس (خاتون) کو ویزہ دیے جانے سے بار بار انکار کیا گیا۔

جرمن خبر رساں ادارے ڈوچ ویلے کو پارلمنٹیرین، مارگاریٹ باس نے بتایا، “یہ آزادانہ طور پر منتخب کی جانے والی پارلیمنٹ کے حقوق میں بے جا دخل اندازی ہے (اور) یہ ایک ایسی چیز ہے جو بنڈ یسٹاگ برداشت نہیں کر سکتی۔”

اس سے قبل چینی کمیونسٹ پارٹی یہ مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ بنڈ یسٹاگ میں 2018ء میں بیجنگ کی جانب سے ویغوروں کی حراست پر ہونے والی ایک بحث کو روک دیں۔ مگر انہوں (مارگاریٹ) نے انکار کر دیا تھا۔

برطانیہ

کیمبرج یونیورسٹی پریس نے بیجنگ کی جانب سے چین میں کیمبرج یونیورسٹی پریس جرنلز پر پابندی لگانے کی دھمکیوں کے بعد چین میں اپنی ویب سائٹ سے کم و بیش 300 مضمون ہٹا دیئے۔ مگر اگست 2017 میں کیمبرج یونیورسٹی پریس نے چین میں اپنی ویب سائٹ پر یہ سب مضامین دوبارہ شائع کیے۔

دا چائنا کوارٹرلی‘ کے ایڈیٹر ٹِم پرنگل نے ایڈیٹوریل بورڈ کے نام ایک ای میل میں کہا کہ زیادہ تر مضامین کا تعلق 1989ء میں تیاننمن سکوائر میں ہونے والے احتجاجوں، ثقافتی انقلاب، تبت، شنجیانگ، ہانگ کانگ تائیوان سے تھا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے اطلاع دی ہے کہ یہ کاروائی ماہرین تعلیم کے درمیان گردش کرنے والی ایک اُس درخواست کے بعد کی گئی جس میں یونیورسٹی پریس سے چینی حکومت سے آنے والی سنسر شپ کی گزارشات کو رد کرنے کا کہا گیا تھا۔ پرنگل نے 2017ء میں کہا، “بین الاقوامی تعلیمی ماہرین کی برادری کی جانب سے حمایت پر مجھے خوشی ہوئی ہے۔”

کمپیوٹر سکرین جس پر ایک آن لائن صفحہ دکھائی دے رہا ہے۔ (© Andy Wong/AP Images)
کمپیوٹر سکرین پر اُس آن لائن درخواست کا ایک صفحہ دکھائی دے رہا ہے جس میں کیمبرج یونیورسٹی پریس کو چین میں سیاسی طور پر حساس 300 سے زائد مضامین کو بحال کرنے پر زور دیا گیا۔ (© Andy Wong/AP Images)