
وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 27 مئی کو کہا کہ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) نے ہانگ کانگ کی اعلٰی درجے کی خودمختاری اور تحفظ یافتہ آزادیوں کے احترام کے اپنے وعدوں کو توڑ دیا ہے۔
اس کے نتیجے میں پومپیو امریکی قانون کے تحت ہانگ کانگ کے ساتھ مختلف سلوک جاری رکھنے کے لیے کانگریس کو درکار سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے قاصر رہے۔
وزیر خارجہ نے کہا، “زمینی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی معقول شخص اعتماد کے ساتھ یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ ہانگ کانگ کو چین سے آج اعلٰی درجے کی خود مختاری حاصل ہے۔”
وزیر خارجہ نے کہا کہ انہوں نے کانگریس کو بتا دیا ہے کہ پی آر سی کا قومی سلامتی کا قانون مسلط کرنے کے فیصلے سے ہانگ کانگ چینی کمیونسٹ پارٹی کی اور زیادہ براہ راست عمل داری میں آ جائے گا اور یہی وجہ ہے کہ چین اپنے اور برطانیہ کے درمیان طے پانے ک والے 1984ء کے مشترکہ اعلامیے میں کیے گئے وعدوں کو توڑ رہا ہے۔
Today, I reported to Congress that Hong Kong is no longer autonomous from China, given facts on the ground. The United States stands with the people of Hong Kong.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) May 27, 2020
امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور برطانیہ نے 28 مئی کو جاری کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا، “چین کا ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کا قانون نافذ کرنا چین پر عائد ہونے والی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے براہ راست متصادم ہے۔”
20 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 200 لیڈروں نے قومی سلامتی کے نئے قانون کی مخالفت کرنے والے ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے ہیں۔ روئٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قانون “شہر کی خود مختاری، قانون کی حکمرانی اور بنیادی آزادیوں پر ایک بھرپور وار ہے۔”
برطانیہ کے وزیر خارجہ، ڈومینیک راب نے کہا، “ہانگ کانگ کے لیے چین کا سلامتی کا مجوزہ قانون مشترکہ اعلامیے کے تحت چین پر عائد ہونے والی اس کی ذمہ داریوں سے براہ راست متصآدم ہے۔ اگر اسے نافذ کیا گیا تو یہ قانون ہانگ کانگ کی خود مختاری اور آزادیوں کی خلاف ورزی ہوگی۔”
وعدہ شکنی
1997 میں ہانگ کانگ پر عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کا خود مختاری کا عمل جب دوبارہ شروع ہوا تو، برطانیہ اور پی آر سی نے ایک”مشترکہ اعلامیے” پر دستخط کیے۔ اس اعلامیے میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ ہانگ کانگ میں معاشرتی اور معاشی نظام اور طرز زندگی کو بدلا نہیں جائے گا۔ اِس کے علاوہ اِن میں بعض مخصوص حقوق اور آزادیوں کو، “بشمول فرد، تقریر، پریس، اکٹھ، تنظیم، سفر، نقل و حرکت، خط و کتابت، ہڑتال، پیشوں کا انتخاب، علمی تحقیق اور مذہبی عقیدے” کی آزادیوں کو قانون کے ذریعہ یقینی بنایا جائے گا۔
گو کہ امریکہ اس مشترکہ اعلامیہ کا فریق نہیں ہے تاہم امریکہ ہانگ کانگ کو مرکزی چینی علاقے سے جدا رسوم و رواج کا حامل علاقہ گردانتا ہے۔ ہانگ کانگ میں اعلٰی درجے کی خود مختاری کی وجہ سے، ہانگ کانگ کے ساتھ اُس سلوک سے مختلف سلوک کیا جاتا ہے جو چین کے مرکزی علاقے کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہانگ کانگ کو معقول حد تک خود مختاری حاصل رہے۔
تجارت اور سرمایہ داری کے فروغ، نفاذ قانون کو وسعت دینے کے لیے تعاون اور تعلیمی، نصابی اور ثقافتی روابط کو مضبوط بنانے کی خاطر امریکہ اور ہانگ کانگ قریبی طور مل کر کام کرتے ہیں۔

پومپیو نے نیشنل پیپلرز کانگریس کے فیصلے کو یکطرفہ اور من مانا قرار دیا۔ انہوں نے کہا، “بیجنگ کا تباہ کن فیصلہ کاروائیوں کے سلسلے کی محض ایک ایسی تازہ ترین کڑی ہے جس کے تحت ہانگ کانگ کی خود مختاری اور آزادیوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔”
وزیر خارجہ نے کہا، “گو کہ ایک وقت امریکہ کو امید تھی کہ خوش حال ہانگ کانگ مطلق العنان چین کے لیے ایک نمونہ ثابت ہو گا مگر اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ چین ہانگ کانگ کو اپنی طرز پر ڈھال رہا ہے۔ ایسے وقت میں امریکہ ہانگ کانگ کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے جب وہ [چینی کمیونسٹ پارٹی کے] اُس خود مختاری کے بڑھتے ہوئے انکار کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا تھا۔”