
اگر آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ پانی مٹی میں کیسے تقسیم ہوتا ہے، تو آپ کیا کرتے ہیں؟ ایک گڑھا کھودتے ہیں؟
نہیں، آپ ایک اچھا منظر دیکھنے کے لیے اوپر آسمان میں جائیں گے۔ کم از کم ناسا کےنزدیک تو اس کا یہی حل ہے۔

جنوری میں امریکہ کے خلائی ادارے نےکُرہ ارض پر مٹی کی نمی کے اعدادو شمار جمع کرنے کی خاطر تیار کیا گیا، “مٹی کی نمی کا فعال و غیرفعال سیٹلائٹ” خلاء میں بھیجا۔ مدار میں چکر لگانے والی یہ فلکیاتی رصدگاہ بادلوں اور سبزے کے اُس پار “دیکھنے” اور مٹی کی اُوپر والی پانچ سنٹی میٹر تہہ میں پانی کی مائع اور منجمد شکل دونوں کی مقدار ناپنے کی خاطر اندر جھانکنے کے لیے مائیکرو ویو ریڈار اور ریڈیومیٹر کا استعمال کرتی ہے۔ اس کا مقصد زمین کے تین بنیادی نظاموں کو سمجھنا ہے: یعنی اِس کے پانی، توانائی اور کاربن کے ادوار کو۔
ماہرین کو توقع ہے کہ اس سیٹلائٹ سے مٹی میں نمی کے اتنے شفاف ترین، اور درُست ترین نقشے پہلی مرتبہ تیار کیے جائیں گے۔ میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں اِس منصوبے کی سائنسی ٹیم کی سربراہ دارا انتخابی نے کہا کہ دوسرے مشنوں کے اعدادوشمار کے ساتھ ملا کر یہ نقشے آب و ہوا میں تبدیلی کے ردعمل میں زمین میں پانی کے دور کے عالمی اور علاقائی ارتقاء — یعنی ماحول میں پانی کے ذخیرے اور بہاوً — سے متعلق “گہری بصیرت” مہیا کریں گے۔ اِن معلومات سے آب و ہوا میں عالمی تبدیلی کی پیشین گوئیوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

دنیا بھر کے کسان اِس تین سالہ مشن سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ سیٹلائٹ کے اعدادوشمار سے وہ فصلوں کی بہتر دیکھ بھال کرسکتے ہیں۔ حکومتیں اور بین الاقوامی تنظیمیں اِن اعدادوشمار کو سیلابوں اور خشک سالیوں کی زیادہ درست طریقے سے پیشین گوئیاں کر نے اور قحط کی قبل از وقت تنبیہ کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔
اپریل میں تیار کیا جانے والا مٹی کی نمی کے پہلے نقشے میں جنوب مغربی امریکہ اور آسٹریلیا کے اندرونی علاقوں میں خُشکی دکھائی دیتی ہے اور امریکہ کے وسطی مغرب اور مشرقی خطوں، یورپ اور ایشیا میں نمی نظر آتی ہے۔