
2018 میں روشن عباس نے اپنے اُن رشتہ داروں – سسرالیوں، بھانجیوں اور بھانجوں – کی گمشدگی کے بارے میں آواز اٹھائی جن کے بارے میں انہیں خدشہ ہے کہ وہ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کے حراستی کیمپوں اور جبری مشقت کے پروگراموں کے نیٹ ورک میں گم ہو چکے ہیں۔
اس کے چھ دن بعد ہی ایک سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر کے طور پر کام کرنے والی روشن کی بہن گلشن عباس اور ان کی خالہ چین کے سنکیانگ کے علاقے سے لاپتہ ہو گئیں۔ تین سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر گلشن اب بھی پی آر سی حکومت کی حراست میں ہیں۔
روشن پر’ ان سرچ آف مائی سسٹر‘ [اپنی بہن کی تلاش میں] کے نام سے ایک دستاویزی فلم بنائی گئی ہے جو فروری 2022 میں برسلز میں ‘ یورپی فاؤنڈیشن فار ڈیموکریسی’ میں دکھائی گئی تھی۔ گلشن نے بتایا، “جب میری نیند سے آنکھ کھلتی ہے تو [میری بہن] پہلی چیز ہوتی ہے میں جس کے بارے میں سوچتی ہوں اور وہی آخری چیز ہوتی ہے میں جس کے بارے میں سونے سے پہلے سوچتی ہوں۔ اب یہ میرا کام ہے کہ میں اپنی طاقت کو اپنی بہن جیسے اُن لوگوں کو بچانے کے لیے استعمال کروں جو اب آزاد نہیں ہیں۔”
روشن کی بہن کا شمار اُن 10 لاکھ سے زیادہ مسلم ویغوروں، نسلی قازقوں، نسلی کرغیزوں اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان میں ہوتا ہے جنہیں پی آر سی نے 2017 سے زیر حراست رکھا ہوا ہے۔
روشن واشنگٹن میں قائم ‘کیمپین فار ویغورز’ [ویغوروں کے لیے مہم] نامی تنظیم کی بانی ہیں۔ یہ تنظیم پی آر سی کے ہاتھوں مظلوم نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے انسانی حقوق کے فروغ کے لیے وقف ہے۔ دستاویزی فلم میں ان کی بہن کے کیس اور حراست میں لیے گئے ویغوروں اور ان کے اہل خانہ کی حالت زار کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ اُن کو رہا کرانے کی ایک کوشش ہے۔

چین سے باہر رہنے والے بہت سے دوسرے ویغور بھی اپنے رشتہ داروں کو آزاد کرانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ ویب سائٹوں پر اپنے رشتہ داروں کا چرچا کرتے ہیں اور WhereIsMyFamily.org [میرا خاندان کہاں ہے] اور FreeMyMom.org [میری ماں کو آزاد کریں] اور #MeTooUyghur [میں بھی ویغور ہوں] جیسے ہیش ٹیگوں سے تصویریں پوسٹ کرتے ہیں۔
کمال ترک یلقون نے 2018 میں اپنے والد کے سنکیانگ میں قید کیے جانے کے بعد 2019 میں روزنامہ نیویارک ٹائمز کو بتایا، “میرے جاننے والے تقریباً سبھی لوگوں کو کیمپوں میں لے جایا گیا۔” 17 سالہ طالب علم کے طور پریلقون نے بیجنگ میں 2008 میں ہونے والی موسم گرما کی اولمپک کھیلوں سے پہلے اولمپک مشعل لے جانے میں مدد کی تھی۔ یلقون اب بوسٹن میں رہتے ہیں۔
یلقون نے کہا، “میرے خیال میں سب سے اچھا کام جو میں کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں اپنے والد کی مدد کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کروں، اُن لاکھوں ویغوروں کی مدد کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کروں جو حراستی کیمپوں میں بند ہیں۔”
کیمپوں سے رہائی پانے والوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے مذہب اور ثقافت کو ترک کرنے پر مجبور کیا گیا۔ کچھ نے تشدد اور جبری نس بندی سمیت مظالم کا بتایا۔ ویغور اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان سنکیانگ اور پورے چین میں جبری مشقت، بڑے پیمانے پر نگرانی اور ظلم و ستم کا شکار ہیں۔
“My father & his colleagues were arrested for purely political reasons, not for something to agitate the govt, but something the govt approved & gave the greenlight to do…..they made him a scapegoat.” @CUyghurs Gen. Sec. @KYalqun speaks at the event by @_JMUF for @Harvard. pic.twitter.com/ThF4I8uDHj
— Campaign For Uyghurs (@CUyghurs) February 28, 2021
روشن نے 2020 کے کرسمس والے دن بتایا کہ دو سال سے زیادہ عرصے تک معلومات تلاش کرنے کے بعد انہیں پتہ چلا کہ ان کی بہن کو بند عدالت میں چلائے جانے ایک مقدمے میں دہشت گردی کے الزام میں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اِن کے خاندان کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اپنی زندگی لوگوں کی مدد کرنے میں صرف کرنے والی اِس ریٹائرڈ ڈاکٹر کے خلاف لگائے جانے والے الزامات “بے بنیاد” ہیں۔
2022 کے اوائل میں یورپ کے اپنے ایک حالیہ دورے کے دوران روشن بیلجیم، کروشیا، جمہوریہ چیک، جرمنی، سلوواکیہ اور نیدرلینڈز گئیں تاکہ اُن ویغوروں کی مدد کی جا سکے جنہیں پی آر سی نے من مانے طور پر حراست میں لے رکھا ہے۔ انہوں نے سرکاری عہدیداروں، مذہبی رہنماؤں اور صحافیوں سے ملاقاتیں کیں، اور یورپی پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ پی آر سی کو ویغوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لیے قانون سازی کریں۔
وہ کہتی ہیں، “یورپ ویغور نسل کشی کے خلاف جنگ میں ایک اہم اتحادی ہے۔ ہمیں ” ایک بین الاقوامی اتحاد بنانے میں یورپی یونین میں اتحادیوں کی ضرورت ہے تاکہ [چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی)] کو جوابدہ ٹھہرانے میں مدد کی جا سکے۔”
گلشن کہتی ہیں، “میں نے سی سی پی کی نسل کشی کے مظالم کا شکار ہونے والی اپنی بہن اور دوسرے لاکھوں افراد کی وکالت کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی کو نئے سرے سے ترتیب دیا ہے۔ ان کی گمشدگی نے میری انصاف کی تلاش کو تیز کر دیا ہے۔”