
15 اپریل 1947 کو جیکی رابنسن نیویارک کے ایبٹس فیلڈ [سٹیڈیم] میں بیس بال کی بروکلین ڈوجرز نامی ٹیم کے ڈگ آؤٹ [دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے بیٹھنے کی جگہ] سے نکلے اور امریکہ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔
رابنسن 75 برس قبل 1880 کی دہائی میں شروع ہونے والی بیس بال کی بڑی لیگوں میں کھیلنے والے پہلے افریقی نژاد امریکی بن گئے۔
1940 کی دہائی میں رنگ و نسل کے حوالے سے امریکہ ایک تقسیم شدہ ملک ہوا کرتا تھا۔ امریکہ کے بیشتر جنوبی حصوں میں افریقی نژاد امریکیوں کے گوروں کے لیے مخصوص سکولوں، محلوں، نوکریوں اور ریستورانوں میں جانے پر پابندی ہوا کرتی تھی۔ یہ کام قوانین، پالیسیوں اور رسم و رواج کے ذریعے کیا جاتا تھا۔
کھیلیں بھی رنگ و نسل کی بنیاد پر تقسیم تھیں۔ مثال کے طور پر سیاہ فام کھلاڑیوں کی بیس بال لیگز [ٹورنامنٹ] الگ تھیں اور یہ “نیگرو لیگز” کہلاتی تھیں۔
2020 میں میجر لیگ بیس بال نے باضابطہ طور پر نیگرو لیگز کے سات پیشہ ور کھلاڑیوں کو تسلیم کیا اور ان میں کھیلنے والے 3,400 سیاہ فام کھلاڑیوں کے اعدادوشمار کو اپنی ‘ ریکارڈ بک’ میں شامل کرنا شروع کیا۔ تاہم رابنسن کے زمانے میں بہت سے سفید فام یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ سیاہ فام کھلاڑی بڑے لیگوں میں جگہ بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ نیو یارک پوسٹ نے رابنسن کے کسی بڑی لیگ میں اپنی جگہ بنانے کے امکانات کا تناسب ایک ہزار میں ایک قرار دیا۔
رابنسن پر اس بات کا زبردست دباؤ تھا کہ وہ اُن کی صلاحیتوں پر شک کرنے والوں کو غلط ثابت کریں۔ یہ کام آسان نہیں تھا۔ انہیں ایسے خطوط موصول ہوئے جن میں یہ دھمکیاں دی گئیں تھیں کہ اگر وہ کھیلے تو انہیں جان سے مار دیا جائے گا۔ حتٰی کہ شروع میں بیس بال کے بعض کھلاڑی بھی اُن کے خلاف تھے۔ باؤلر اُن کے سر کا نشانہ لے کر تیز گیندیں کراتے تھے۔ کھیل کے دوران کیلوں والے جوتے پہنے رنرز اُن کے پاؤں پر پاؤں رکھ دیتے تھے۔
مگر اس باصلاحیت کھلاڑی نے صبر سے کام لیا اور اِن سب مشکلات سے کامیابی سے نکل آیا۔
اپنے پہلے سیزن میں رابنسن نے .297 کی شرح سے بیٹنگ کی اور 125 رنز بنائے۔ انہیں نیشنل لیگ کا سال کا بہترین ‘ روکی’ یعنی نیا کھلاڑی قرار دیا گیا۔ ڈوجرز کے ریڈیو اناؤنسر ریڈ باربر نے رابنسن کو افسانوی بیب رُوتھ کے بعد سب سے زیادہ پرجوش کھلاڑی قرار دیا۔
بہت سے امریکی شائقین نے رابنسن کی ہمت اور برتاؤ کی تعریف کی۔ رابنسن کے پہلے سیزن کے بعد ایک سروے میں انہیں امریکہ کی دوسرے نمبر کی سب سے زیادہ پسندیدہ شخصیت قرار دیا گیا۔ وہ گلوکار بنگ کراسبی کے بعد دوسرے نمبر پر تھے لیکن وہ جنرل ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور سے آگے تھے۔
رابنسن نے مستقبل میں آنے والے وِلی مے اور ہنری ایرون جیسے بیس بال کے عظیم کھلاڑیوں کے لیے راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر کھیلوں کے سیاہ فام کھلاڑیوں کے لیے بھی راہیں ہموار کیں۔
اس سے بھی کہیں بڑھکر رابنسن نے امریکہ کو ایک ایسی جگہ بننے کی طرف لے جانے میں مدد کی جہاں سب لوگ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنا اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلم ساز کین برنز نے رابنسن کو “امریکی کھیلوں کی تاریخ کی سب سے اہم شخصیت” کہا۔
اس مفت پوسٹر کو دیکھیے اور ڈاؤن لوڈ کیجیے (پی ڈی ایف، 9.9 ایم بی)۔
فری لانس مصنف فریڈ بوون نے یہ مضمون تحریر کیا۔