سائنو ہائیڈرو نامی چینی تعمیراتی کمپنی کے ایکویڈور کے ‘کوکا کوڈو سنکلیئر پن بجلی کے ڈیم’ کی تکمیل کے بعد ڈیم کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

سابقہ حکومت کی جانب سے منظوری دیے جانے کے بعد یہ بہت بڑا منصوبہ جنوبی امریکہ کے اس چھوٹے سے ملک کی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ابتدا ہی میں مقامی لوگ اس کے بارے میں پریشان تھے کیونکہ لیڈر ماحولیاتی نقصان سے متعلق خطرات سے چشم پوشی کر رہے تھے۔  جب کام شروع ہوا تو ڈیم تعمیر کرنے والی چینی کمپنی نے سلامتی اور معیار کے پیمانوں کو نظرانداز کیا۔ اور ناقص تعمیر کی وجہ سے ڈیم کے زیریں علاقوں میں واقع کھیتوں میں وقفوں سے سیلاب آتے رہتے ہیں۔

Night view of a power station (© Federico Rios Escobar/The New York Times/Redux)
ایکویڈور میں ریوینٹاڈور کے قریب کوکا کوڈو سنکلیئر ڈیم کا بجلی کا گرڈ سٹیشن۔ 2016ء سے لے کر آج تک اس کو مکمل طور پر ٹسٹ نہیں کیا گیا جب کہ ابتدائی ٹسٹ ناکام ہوا۔ (© Federico Rios Escobar/The New York Times/Redux)

سنٹر فار اے نیو امیریکن سکیورٹی نامی تحقیقی تنظیم نے ایک نئی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کوکا کوڈو ڈیم چین کے ” بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے” کی محض چند ایک مشکلات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ رپورٹ بنیادی ڈھانچے میں چینی سرمایہ کاری کے بارے میں سوچنے والے ممالک کے لیے، ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے سے لے کر مقامی کمیونٹیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے تک، سات مشکلات بیان کرتی ہے۔

اس منصوبے کی مالیاتی پائیداری کے سوال کے جواب میں ایکویڈور ڈیم ایک انتباہی کہانی پیش کرتا ہے۔ چینی قرضے کی شرائط میں ایکویڈور کے لیے ضروری ہے کہ وہ کم از کم پانچ سال کے عرصے کے لیے اپنی 80 فیصد تیل کی برآمدات [چین کے] حوالے کر دے۔ ڈیم کی تعمیر کے لیے برآمدات و درآمدات کے چینی بنک کی طرف سے 1.7  ارب ڈالر کے دیے جانے والے اس قرضے کے تحت ایکویڈور کو صرف سود کی ادائیگی میں ہر سال 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ادا کرنے ہوتے ہیں۔ قصہ مختصر، ایکویڈور نے 2010 سے لے کر اب تک 20 ارب ڈالر کے چینی قرضے حاصل کیے اور اب وہ چینی قرضوں کی ادائیگی یا چینی قرضے خریدنے کے لیے بین الاقوامی مدد کی تلاش میں ہے۔

چینی سودوں کو پرکھنا

چین کے بیلٹ اور روڈ کے تجزیے (پی ڈی ایف) کے بارے میں رپورٹ میں ارجنٹینا میں خلائی کمپلیکس سے لے کر اسرائیل میں حیفہ کی بندرگاہ  میں توسیع کے چینی سرمایہ کاری کے 10 مخصوص منصوبوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ سب منصوبے چین کے “بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے” کا حصہ ہیں جس کا مقصد مشہور زمانہ اُس شاہراہ ریشم کے تجارتی راستوں  کو دوبارہ تخلیق کرنا اور پھیلانا ہے جو کبھی چین کو دنیا سے ملایا کرتے تھے۔ اس رپورٹ میں جاپان، آسٹریلیا اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی مدد سے وانو اٹو کی بندرگاہ اور چین کی مدد سے چلنے والے منصوبوں کا تقابلی جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

Chart showing how Chinese-funded projects in 10 countries do on various measurements (CNAS/Shutterstock)

سی این اے ایس کے ایلائی راٹنر نے کہا، “چین کے بنیادی ڈھانچوں کے بیلٹ اور روڈ  منصوبے دنیا بھر کے ممالک کو بڑے پُرکشش دکھائی دیتے ہیں مگر اِن کی اچھی خاصی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ دنیا کے ہر سطح کے لیڈروں اور مبصروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ چین کے ساتھ شراکت کاری کے نتائج کو سمجھیں۔”

اِن میں بہت سے منصوبوں کے لاگتوں کے ابتدائی تخمینوں سے اصلی لاگت زیادہ ہوتی ہے اور اِن میں مہنگے اضافے ہوتے رہتے ہیں جو میزبان ممالک پر قرض چڑہا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہنگری میں بلغراد سے بڈا پسٹ تک تیز رفتار ریلوے کی تعمیر کے تخمینے کے مطابق یہ حکومت کو2.66  ارب ڈالر میں پڑنا تھا جب کہ ابتدائی لاگت 1.95  ڈالر تھی۔

جیتیں- ہاریں

اگرچہ چین اپنے “بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے” کو اقتصادی ترقی کے طور پر فروغ دیتا ہے مگر یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ “میزبان ممالک کو اختیارات سے محرومی، غیرشفافیت، قرض، دو رخے استعمال کی گنجائش، اور بدعنوانی جیسے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ اس کے برعکس بیجنگ کے لیے یہ عوامل تزویراتی اثاتے ثابت ہوتے ہیں۔”

ارجنٹینا میں ایک منصوبہ اس کی زندہ مثال ہے۔ چینی حکومت نے پانچ  کروڑ ڈالر کی لاگت سے پیٹاگونیا کے مقام پر ایک سیٹلائٹ اور خلائی کنٹرول کا مرکز تعمیر کیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقامی کمپنیوں کو اس منصوبے کے بعض پہلووں سے باہر رکھنے کے لیے چین نے سابقہ حکومت کے ساتھ زیادہ تر خفیہ طریقے سے معاملات طے کیے۔ اس کاروباری معاہدے کے تحت چین کو 50 سال تک بغیر کرایہ ادا کیے زمین کو”پٹے پر حاصل کرنے” کا حق حاصل ہے۔ اس کی تعمیر کے بعد آج تک یہ جگہ چینی فوج کے زیرانتظام چلائی جا رہی ہے۔

Large antenna dish seen through thorn bush (© Mauricio Lima/The New York Times/Redux)
پیٹا گونیا، ارجنٹینا کا چینی قرضوں سے تیار کیا جانے والے خلائی مرکز۔ اسے فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ © Mauricio Lima/The New York Times/Redux)

ایک بہتر متبادل

اقتصادی ترقی میں غیر شفاف اور قرض کی بنیاد پر چلائے جانے والے [منصوبے] شامل نہیں ہونے چاہییں۔ اس رپورٹ میں ایک بہتر متبادل کا حوالہ دیتے ہوئے وانواٹو کے پورٹ ولا کی بندرگاہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ جاپان کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے، آسٹریلیا ایڈ اور ایشیائی ترقیاتی بنک نے تیار کیا ہے۔

بندرگاہ کے لیے حاصل کیے گئے زیادہ تر قرضوں میں سود کی شرح ایک فیصد ہے۔ مقامی لوگوں نے بندرگاہ کی تعمیر کی۔ تکمیل کے بعد سرمایہ کاروں نے تمام اختیارات وانو اٹو کی حکومت کے حوالے کر دیے۔

امریکہ اپنی حد تک ایسی ترقیاتی امداد دیتا ہے جو ملکوں کو قرض میں نہیں جکڑے رکھتی۔ مزید برآں، امریکہ کا ہدف ایسی آزاد، منصفانہ اور دو طرفہ تجارت ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کاروبار کے لیے اربوں ڈالر کی  نجی سرمایہ کاری عمل میں آتی ہے اور اس سے امریکہ اور شراکت کار ممالک دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔

پاپوا نیوگنی میں منعقد ہونے والی ایشیا – بحرالکاہل کی اقتصادی تعاون کی کانفرنس میں نائب صدر پینس نے کہا، “ہم اپنے شراکت کاروں کو قرض کے سمندر میں نہیں ڈبوتے۔ ہم آپ کی آزادی کا بہلا پھسلا کر یا کسی اور طریقے سے سودا نہیں کرتے۔”

[ایڈیٹر کا نوٹ: امریکہ کے محکمہ خارجہ کی مالی اعانت سے تیار کی جانے والی اس رپورٹ میں چینی امداد سے تیار کیے جانے والے اِن دس منصوبوں کا جائزہ لیا گیا ہے: ایکویڈورمیں کوکا کوڈو سنکلیئر پن بجلی کا ڈیم، ارجنٹینا کا خلائی کمپلیکس، ہنگری کی بڈاپسٹ – بلغراد ریلوے، زمبابوے کا چہرے کی شناخت کا منصوبہ، اسرائیل کی حیفہ کی بندرگاہ، پاکستان کے کوئلے کے پلانٹ، تاجکستان کی چینی – ترکمان پائپ لائن ڈی، برما کی کیوکپو بندر گاہ، انڈونیشیا کی جکارتہ – بنڈونگ کی تیز رفتار ریلوے اور وانو اٹو کی لوگن وِل بندرگاہ۔]