برازیل میں زیکا وائرس کی وبا ہو یا جمہوریہ کانگو میں ایبولا کا مرض پھیلا ہو، جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈینیئل لوسی بعض حالیہ عالمگیر وباؤں کی روک تھام میں پیش پیش رہے اور وہ جانتے ہیں کہ بیماری کس قدر تیزی سے پھیل سکتی ہے۔
وہ اس بات سے بھی آگاہ ہیں کہ لوگوں، جانوروں اور ان کے ماحولوں کی صحت آپس میں کیسے ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ واشنگٹن میں’ سمتھسونین انسٹیٹیوشن ‘کے’ نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری’ میں ان کی معاونت سے جاری ایک نئی نمائش میں اسی نکتے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس نمائش کا عنوان ”مربوط دنیا میں پھوٹتی وبائیں’ ہے۔
یہ نمائش انفلوئنزا سے لے کر ایچ آئی وی/ایڈز تک ایسی وباؤں سے متعلق ہے جن سے بیشتر لوگ آگاہ ہیں۔ تاہم ان میں نیپا وائرس جیسی نئی وبائیں بھی شامل ہیں۔
ایک متعامل کھیل اس نمائش کا اہم جزو ہے جس میں ‘ون ہیلتھ’ نامی طبی پروگرام کی نقل پیش کی جاتی ہے۔ اس میں شرکا فرضی وبا سے نمٹنے کے لیے مختلف کردارادا کرتے ہیں جن میں کوئی مویشیوں کا ڈاکٹر بنتا ہے تو کوئی لیبارٹری ٹیکنیشن اور کوئی وبائی امراض کے ماہر کا کردار ادا کرتا ہے۔ لوسی کہتے ہیں ”اس میں یہی کچھ ہے، یعنی اکٹھے کام کرنا، بہت سے لوگوں کی قوت کا عملی تعاون۔ ہمیں … بہتر طور سے تیاری کرنے، بہتر ردعمل دینے اور بہتر بحالی کے لیے یہی کچھ درکار ہوتا ہے۔”

بھارت سے تعلق رکھنے والے معالج، ڈاکٹر دیپک سکسینا نے امریکی دفتر خارجہ کے زیرانتظام ایک ہفتے پر مشتمل تبادلے کے دورے کے اختتام پر اس نمائش کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ”جب تک آپ اس معاملے کو مکمل طور سے نہیں دیکھتے اس وقت تک آپ اسے پوری طرح سمجھ نہیں سکتے۔” ڈاکٹر سکسینا ‘ون ہیلتھ’ پروگرام کو فروغ دیتے ہیں اور بھارت کے انتہائی مغربی حصے میں واقع ریاست گجرات میں طبی نگہداشت کے عملے کو تربیت دینے پر مامور ہیں۔
‘کیئر پیرو’ کے ساتھ زیکا کی روک تھام کے لیے ماہر ابلاغیات کے طور پر کام کرنے والے رابرٹو کارلوس اینگوئس فسٹر کے مطابق ”سماج اور رویوں میں تبدیلی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔” وہ کہتے ہیں کہ موسم برسات میں گھروں کے قریب پانی کھڑا نہ ہونے دینے جیسے سادہ سے اقدامات مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ پیرو اور ایکویڈور میں زیکا کے خاتمے کے لیے نوجوانوں کی درجنوں تنظیموں کو باہم جوڑنے کے لیے سوشل میڈیا سے کام لیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اس علم پر عمل کے قابل بنانا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
ویت نام کی وزارت صحت کے لیے چھوت کی بیماریوں پر قابو پانے اور ان کی روک تھام کے لیے کام کرنے والی فان تھی ہونگ اس بات سے متفق ہیں۔ فان ہر سال ‘ایشین ڈینگی ڈے’ پر گھروں سے مچھروں کے لاروے کا خاتمہ کرنے کے لیے شعبہ صحت کے مقامی حکام کے ساتھ مل کر ملک بھر میں ایک مہم کا اہتمام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”ہم سالانہ بنیادوں پر سرگرمیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہمیں لوگوں کے رویے میں تبدیلی لانے کے لیے ان سے بات چیت کے نئے طریقے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔”
‘سمتھسونین انسٹیٹیوشن’ کے زیراہتمام وباؤں پر یہ نمائش عملی اقدام اٹھانے کا موقع ثابت ہو سکتی ہے۔ اسے کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ دنیا بھر میں کوئی بھی اپنے لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے اپنے انداز میں اسی طرح کی نمائش منعقد کرانے کے لیے اس کا پرنٹ مانگ سکتا ہے ۔ لوسی کا کہنا ہے کہ ”آپ اسے جراثیموں یا طفیلی کیڑوں کے بارے میں بات کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں یا اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کر سکتے ہیں۔”

‘سمتھسونین ڈی آئی وائی’ یا ‘خود کیجیے’ نامی پروگرام کی نگران کیری ڈین کہتی ہیں کہ سمتھسونین کو پہلے ہی دنیا بھر میں ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور عجائب گھروں کی جانب سے نمائش کے سامان کے حصول کی 100 سے زیادہ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عجائب گھر کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ عراق، یمن اور جمہوریہ کانگو جیسی جگہوں پر ‘ڈی آئی وائی’ کی نمائشیں ہو رہی ہیں جہاں جنگوں کے باعث وباؤں پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
دلچسپ انداز میں کہا جائے تو سمتھسونین کو اس نمائش کی ‘وبا’ پھیلنے کی خوشی ہے۔ ڈین کہتی ہیں ”یہ سلسلہ پھیل رہا ہے اور مجھے اسے پھیلتا دیکھ کر بے حد خوشی ہے کیونکہ یہ اہم معلومات ہیں جن سے زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔”