
پیوٹن کے دعووں اور کریملن کے اقتصادی اعدادوشمار کے برعکس، ولاڈیمیر پیوٹن کی یوکرین میں غیرمنصفانہ جنگ کے ردعمل میں لگائی جانے والی پابندیاں اور کاروباروں کی بندشیں روسی معیشت کو شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔
30 سے زائد ممالک نے روس پر پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اِن ممالک نے توانائی کی درآمدات کم کر دی ہیں، مالیاتی لین دین ختم کر دیا ہے اور سیمی کنڈکٹروں اور الیکٹرانکس جیسی دیگر اہم درآمدات کی سپلائیز روک دی ہیں۔ اِن کے نتیجے میں ایک ہزار غیرملکی کمپنیوں نے روس میں اپنی کاروباری سرگرمیاں بند کر دی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ روس کی درآمدات میں 50 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ صارفین کی خرچ کرنے کی شرحِ تیزی سے گری ہے اور پیوٹن کو بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ روسی معیشت کو پیوٹن کی یوکرین کے ساتھ ڈھٹائی سے چھیڑی گئی جنگ کے نتائج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے برعکس کریملن کی پراپیگنڈہ مشین معاشی استحکام کی نقلی تصویر پیش کرنے میں دن رات کام کر رہی ہے۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے نامہ نگاروں کو 27 جولائی کو واشنگٹن میں بتایا کہ “ماسکو صدر پیوٹن کے اِس اصرار کی حمایت کرنے کے لیے اپنی پسند کے اقتصادی اعدادوشمار کا انتخاب کرتا چلا آ رہا ہے کہ سب اچھا ہے اور روسی معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔ سیدھی بات ہے کہ یہ سچ نہیں ہے۔”
ییل یونیورسٹی کے سکول آف مینیجمنٹ اور چیف ایگزیکٹو لیڈر شپ انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ تجزیے میں بین الاقوامی پابندیوں اور کاروباروں کی بندش کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ذیل میں چند ایک ایسے بنیادی حقائق بیان کیے جا رہے ہیں جو کریملن کے ملک کے معاشی استحکام اور معاشی کارکردگی کے مفروضوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔

مفروضہ: روس آسانی سے قدرتی گیس کی برآمدات کا رخ ایشیا کی طرف موڑ سکتا ہے۔
حقیقت: روس کا توانائی کا بنیادی ڈھانچہ ایشیا کی طرف منتقلی کو محدود کرتا ہے۔
روس کے لیے غیر یورپی ممالک کو قدرتی گیس برآمد کرنا مستقبل قریب میں ممکن نہیں ہے۔ روس کی 90 فیصد سے زائد گیس پائپ لائنوں کے ذریعے بھیجی جاتی ہے اور روس کی زیادہ تر پائپ لائنیں یورپ کی مارکیٹوں اور ریفائنریوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
مفروضہ: روسی معیشت اور اندرون ملک کھپت مضبوط ہیں۔
حقیقت: اقتصادی دباؤ بین الاقوامی مصنوعات تک روسیوں کی رسائی کو محدود کر رہا ہے۔
روس کو نظر آ رہا ہے کہ بین الاقوامی کاروبار اور لگژری برانڈز ملک سے نکل چکے ہیں اور اس کے بہترین اور ذہین ترین ورکر بھی ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ییل کے تجزیے کے مصنفین جریدے فارن پالیسی میں لکھتے ہیں کہ روس میں غیرملکی کاروں کی فروخت میں 95 فیصد کمی آئی ہے۔ اُن کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ غائب ہوتی ہوئی غیرملکی سرمایہ کاری پانچ لاکھ افراد کے انخلا کا باعث بنی ہے۔ اِن میں سے زیادہ تر افراد اعلٰی درجے کی مہارتوں اور تعلیم کے حامل ہیں۔
پابندیوں نے کاروباروں اور ذہین افراد کے انخلا کے ساتھ مل کر معیشت پر یکے بعد دیگرے منفی اثرات چھوڑے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے۔ اسی دوران گزشتہ برس صارفین کی طرف سے خرچ کی جانے والی رقومات اور خوردہ اشیا کی سیل میں لگ بھگ 20 فیصد کمی آئی ہے۔
مفروضہ: روس مغرب کی طرف سے کم ہونے والی درآمدات کو ایشیا سے درآمدات کے ذریعے پورا کر سکتا ہے۔
حقیقت: چینی درآمدات سمیت روس کی درآمدات 50 فیصد کم ہوئی ہیں۔
جہاں اس سال روس کی مجموعی درآمدات میں 50 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے وہیں عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) سے درآمدات کی قدر میں بھی ڈرامائی طور پر کمی آئی ہے۔ تجزیے کے مصنفین کا کہنا ہے کہ جنوری سے اپریل 2022 تک چین سے کی جانے والی درآمدات 8.1 ارب ڈالر ماہانہ سے گر کر 3.8 ارب ڈالر ماہانہ پر آ گئیں ہیں۔
درآمدی سامان کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ روسی مصنوعات سازوں کو اُن تکنیکی آلات اور پرزوں کو ری سائیکل کرنا پڑے گا جو وہ مقامی طور پر نہیں بنا سکتے۔ روس فوجی سازوسامان میں فریج اور برتن دھونے والی مشینوں سے نکالی گئی مائیکرو چپس کا استعمال کر رہا ہے۔ روس میں کمپنیوں کے لیے خریداری کرنے والے مینیجر نئے آرڈر دینے کم کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں صارفین اُن اشیا تک اب رسائی حاصل نہیں کر پا رہے جو کبھی ان کی زندگیوں کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔
.@SecBlinken: Though the Kremlin is working hard to paint a picture of economic stability, the facts show otherwise. The powerful impact of sanctions will grow and compound over time. pic.twitter.com/dbBji0J15P
— Department of State (@StateDept) July 27, 2022
مفروضہ: کریملن کے پاس بہت زیادہ کیش [نقدی] ہے اور وہ کیش کے ذخائر پر انحصار کر سکتا ہے۔
حقیقت: پیوٹن کے مالی ذخائر پہلے ہی کم ہو چکے ہیں اور اب یہ روسی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتے۔
ماضی میں روس نے توانائی کی برآمدات سے حکومتی سطح پر اچھی خاصی دولت جمع کرنے کا موقع ملا۔ اب امریکہ، جاپان اور یورپی شراکت داروں کی جانب سے یپوٹن کی مسلسل جارحیت کے ردعمل میں عائد کردہ پابندیوں کی بدولت روس کے بیرونی ممالک میں موجود آدھے فنڈ منجمد کیے جاچکے ہیں۔
24 فروری کے حملے کے بعد پیوٹن کے زرمبادلہ کے باقیماندہ ذخائر کی قدر 75 ارب ڈالر گر چکی ہے۔ گو کہ پیوٹن کا دعویٰ ہے کہ روبل مضبوط ہے مگر ییل کا تجزیہ بتاتا ہے کہ روس مصنوعی طریقے سے اپنی کرنسی کی قدر ملک کے اندر زرمبادلہ پر پابندیوں کے ذریعے بڑھا رہا ہے۔ اِن پابندیوں کی وجہ سے “کسی بھی روسی کے لیے قانونی طور پر ڈالر خریدنے کے ساتھ ساتھ اکثریت کے [بنکوں میں جمع] اپنے ڈالروں تک موثر رسائی حاصل کرنا بھی ناممکن ہو گیا ہے۔”
مصنفین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ “یہ دلائل دینے والی شہ سرخیاں کہ روسی معیشت دوبارہ ہہتر ہوگئی ہے حقیقت کی عکاسی نہیں کرتیں۔ حقائق یہ ہیں کہ [دنیا] کے کسی بھی سطح کا کوئی بھی پیمانہ لے لیں تو پتہ چلتا ہے کہ روسی معیشت مسائل کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔”
گو کہ پیوٹن کا اصرار ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے، لیکن حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ پابندیوں کا معاشی نقصان حقیقی اور اہم ہے۔