خود مختار اور آزاد میڈیا عوام کو حکومتی اثر سے آزاد رہ کر باخبر فیصلے کرنے، لیڈروں کو جوابدہ ٹھہرانے اور متنوع نقطہائے نظر سننے کے قابل بناتا ہے۔
امریکہ میں صحافی صحت عامہ کے سوالات پر خبریں دے سکتے ہیں، منتخب کردہ عہدیداروں سے سوالات پوچھ سکتے ہیں۔ اور ہاں بعض اوقات یہ سوالات بڑے جارحانہ انداز سے پوچھے جاتے ہیں۔ اس ک علاوہ وہ انتقامی خوف سے آزاد ہو کر متنازعہ مسائل پر بھی بات کر سکتے ہیں۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 2 مئی2021 کو کہا، “معلومات اور علم طاقتور وسائل ہیں۔ ایک آزاد اور خود مختار پریس وہ بنیادی ادارہ ہوتا ہے جو عوام کو اُن معلومات سے جوڑتا ہے جن کی انہیں اپنے مسائل کی حمایت حاصل کرنے، باخبر فیصلے کرنے اور حکومتی عہدیداروں کو جوابدہ ٹھہرانے کی ضرورت ہوتی ہے۔”
امریکی آئین کا مسودہ تیار کرنے والوں نے پریس کی آزادی کو اتنا ضروری سمجھا کہ انہوں نے اسے آئین کی پہلی ترمیم میں حقوق کے منشور (1791) کے ایک حصے کے طور پر شامل کیا۔ اس منشور میں حکومت کے حد سے تجاوز کرنے کی صورت مِں انفرادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

امریکہ میں میڈیا کو بعض اوقات “چوتھا ستون” یا حکومت کی چوتھی شاخ بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ آئین کے تحت انتظامیہ، مقننہ اور عدالتیں قائم کیں گئیں ہیں مگر “چوتھے ستون” کے الفاظ غیرسرکاری مگر وسیع پیمانے پر ادا کیے جانے والے اُس کردار کی عکاسی کرتا ہے جو نیوز میڈیا شہریوں کو معلومات کی فراہمی میں ادا کرتا ہے۔ شہری اِن معلومات کو حکومتی اقتدار پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
صحافیوں کی فراہم کردہ معلومات شہریوں کی مختلف امور کے ایک وسیع سلسلے میں باخبر فیصلے کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ اس سلسلے کا تعلق مقامی سکولوں کی فنڈنگ سے لے کر خوراک اور ادویات کے محفوظ ہونے تک اور ہاں امیدواروں کو ووٹ دینے تک سے ہوتا ہے۔
کووڈ-19 ہی کو لے لیں۔ امریکی نامہ نگاروں نے وضاحت سے بتایا ہے کہ یہ وائرس کیا ہے، اس پر قابو پانے پر کی جانے والی کوششوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا ہے، اس سے بچنے کے بہتریں طریقے عوام تک پہنچائے ہیں اور غلط معلومات کو رد کیا ہے۔ اس کے برعکس ایران اور چین میں نامہ نگاروں کو گرفتار کیا گیا اور محض کووڈ-19 کے بارے میں سچ بتانے پر اُن کے لیپ ٹاپ ضبط کر لیے گئے۔ بلکہ بعض کو تو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملیں۔

آزاد پریس میں متنوع آوازیں اور آرائیں شامل ہوتی ہیں نہ کہ وہ چیزیں شامل ہوتی ہیں جنہیں سیاست دان سننا چاہتے ہیں۔ امریکہ میں تحقیقاتی صحافی اہم موضوعات پر گہری تحقیق کرتے ہیں تاکہ اُن حقائق سے پردہ اٹھایا جا سکے جن کے بارے میں شہریوں کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکی رپورٹر یہ جانتے ہوئے ہر قسم کے احتجاج اور ریلیوں کا احاطہ کرتے ہیں کہ اُنہیں آئین کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ اس کے برعکس بیلا روس اور روس جیسے ممالک میں صحافیوں کو اکثر ہراساں کیا جاتا ہے، انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے اور بعض اوقات اُنہیں ایسی ریلیوں کی کوریج کرنے پر مارا پیٹا جاتا ہے جن پر حکومتی رہنما کو اعتراض ہوتا ہے۔

امریکہ میں میڈیا آزاد ہے۔ صحافی حکومت سے فنڈ نہیں لیتے۔ میڈیا کے زیادہ تر اداروں کی آمدنی کا ذریعہ اپنے مواد کی سبسکرپشن کے ذریعے فروخت یا اشتہاری مواد کی فروخت ہوتا ہے۔ کاروبار کرنے کا یہ طریقہ آزادی کا موجب بنتا ہے۔
جن ممالک میں پریس کی آزادی محدود یا بالکل نہیں ہوتی اُن میں میڈیا عام طور پر یا توحکومت کی مالکیت ہوتا ہے یا پھر اُس کے صحافتی فیصلے حکومتیں بذات خود کرتی ہیں۔ یہ حکومتیں خبروں کو سنسر کرتی ہیں اور اختلافی آوازوں کو دبا دیتی ہیں۔
اسی لیے امریکی حکومت اُن ممالک میں عوامی میڈیا کے اداروں کو مالی مدد فراہم کرتی ہے جو ممالک پریس پر پابندیاں لگاتے ہیں۔ ریڈیو فری یورپ، ریڈیو فری ایشیا اور وائس آف امریکہ جیسے ادارے اُن ممالک کی زبانوں میں نشریات پیش کرتے ہیں جہاں یا تو میڈیا کی آزادی بالکل نہیں یا یہ آزادی محدود ہے۔ اِن کے زیادہ تر ملازمین مقامی لوگ ہوتے ہیں۔ امریکی حکومت اُن پر ایسا کوئی حکم نہیں چلاتی کہ میڈیا کے یہ ادارے کس چیز کے بارے میں بات کریں یا وہ کیسے بات کریں۔
صحافیوں کا تحفظ کرنے والی کمیٹی اور فریڈم ہاؤس اور سرحدوں سے ماوراء رپورٹروں جیسی کئی ایک بین الاقوامی تنظیمیں پوری دنیا میں پریس کی آزادی کی نگرانی کرتی ہیں۔
سرحدوں سے ماوراء صحافیوں کی تنظیم کہتی ہے، “کسی بھی جمہوریت میں معلومات کی آزادی کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ مگر دنیا کی تقریبا نصف آبادی کو آزادانہ طور پر رپورٹ کی جانے والی خبروں اور معلومات تک رسائی حاصل نہیں۔ اظہار رائے اور آزادیوں کا اولین اور اہم ترین حصہ معلومات کی آزادی ہے۔”
ابتدا میں یہ مضمون14 اکتوبر 2021 کو شائع کیا گیا۔