جب قاضی منان ترک وطن کر کے امریکہ آئے تو اُن کی جیب میں کم و بیش تین ڈالر تھے اور اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ 18 برس بعد وہ ایک ریستوران کے مالک بن جائیں گے۔ آج، اُن کا ریستوران ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ درحقیقت اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر انہیں مختصر سے آرام کے لیے اپنے دفتر میں چھپنا پڑتا ہے۔
سکینہ حلال گرل کے نام سے یہ ریستوران “پاکستانی اور انڈین کھانے” پیش کرتا ہے اور یہ وائٹ ہاؤس سے اتنا قریب ہے کہ آپ وہاں سے پیدل چل کر آ سکتے ہیں۔ چاہے کسی کے پاس پیسے ہیں یا نہیں اس ریستوران میں آنے والے ہر شخص کو کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ قاضی منان نے بتایا، “میں چاہتا تھا کہ بے گھر لوگ ریستوران کے اندر آئیں اور وہ زندگی کا اسی طرح لطف اٹھائیں جس طرح یہ لوگ پہلے کبھی اٹھایا کرتے تھے۔ ہرکوئی پیدائشی طور پر بے گھر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی مشکل میں ہو تو ہم کہتے ہیں، ‘آئیے اس کا ہاتھ تھامیں۔'”
قاضی منان پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بڑے ہوئے۔ اُن کے والد ٹیچر تھے۔ اُن کی والدہ نے دیگر نو بہن بھائیوں کے ہمراہ اُن کی پرورش کی۔ منان کو یاد ہے کہ بچپن میں وہ بھوکے ہوتے تھے اور انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا تھا کہ اُن کے اگلے وقت کا کھانا کب اور کہاں سے آئے گا۔
اس وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، “مشکل کے اُن دنوں میں بھی میری والدہ جب کھانا پکایا کرتی تھیں تو وہ اس کھانے میں سے ہمیشہ ہمسایوں کو بھی دیا کرتی تھیں۔ اس پر میں تھوڑا بہت ناراض ہوتا تھا۔ ہمارے پاس کافی کھانا نہیں ہے تو پھر وہ دوسروں کو کھانا کیوں بھجواتی ہیں؟ وہ ہمیشہ کہتی تھیں، ‘ جب خدا آپ کو زیادہ دیتا ہے تو آپ اسے (مخلوق خدا میں) بانٹتے ہیں۔'”

1996ء میں انہوں نے امریکی ویزے کے لیے درخواست دی۔ اُنہیں ویزا ملا اور وہ واشنگٹن آ گئے۔ یہاں پر انہوں نے ایک پٹرول پمپ پر دو شفٹوں میں کام کیا۔ بعد میں انہوں نے لیموزین چلانا شروع کر دی۔ جب انہوں نے کافی پیسے بچا لیے تو انہوں نے لیموزین کی ذاتی کمپنی کھول لی۔ مگر انہیں والدہ کے مخلوق خدا میں بانٹنے کے الفاظ یاد تھے۔ انہوں نے اپنے آپ سے کہا: “مجھے امید ہے کہ ایک دن میں ایک ریستوران کا مالک بنوں گا اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں حقیقی معنوں میں لوگوں کی مدد کروں گا۔”
گزشتہ پانچ سالوں میں، سکینہ حلال گرل ضرورت مندوں میں 80,000 سے زائد مفت کھانے مہیا کر چکا ہے جن کی سالانہ اوسط تقریبا 16,000 بنتی ہے۔
ماہِ رمضان میں منان فرینکلن سکوائر نامی ایک قریبی پارک میں بے گھر افراد کے لیے افطاریوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ایک جگہ جمع ہوتے ہیں، اکٹھے کھانا کھاتے ہیں اور اس دوران گپ شپ لگاتے ہیں۔ اگر مذہبی وجوہات نہ بھی ہوں تو بھی منان ہر ایک کی افطاری پر آنے کی ہمت افزائی کرتے ہیں تاکہ انہیں احساس ہو سکے کہ بے گھر اور پسماندہ کمیونٹیوں کے افراد بھوک کو کیسے محسوس کرتے ہیں۔
2014ء میں امریکی شہری بننے والے منان کا ایک ایسی فاؤنڈیشن بنانے کا خیال ہے جو بے گھر افراد کو مفت کھانا کھلانے میں دوسرے ریستورانوں کی مدد کرے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سکینہ حلال گرل دوسروں کے لیے ایک ایسی مثال بنے کہ ایک وقت میں ایک کھانا دیتے ہوئے کوئی شخص کس طرح اپنی کمیونٹی کو صلہ دے سکتا ہے۔
منان نے بتایا، “اس پیارے ملک نے جیب میں تین ڈالر لے کر ایک تارک وطن کی حیثیت سے آنے والے مجھ جیسے شخص کو یہ موقع دیا ہے۔ اور آج میرے پاس ایک کامیاب ریستوران ہے۔ میں اس کا صلہ دینا چاہتا ہوں۔ اور یہ بات انتہائی اہم ہے۔”
یہ مضمون فری لانس مصنفہ، نولینی کرشنر نے تحریر کیا۔