خواتین اپنے کاروبار کیسے شروع کرتی ہیں؟ نیٹ ورکنگ، مالی تعلیم اور انتہائی زیادہ اعتماد کے ساتھ۔
برازیل کی غیر منفعتی تنظیم Mais Unidos [میز اونیڈوز] نے برازیل میں خواتین کو مالی اعانت، مارکیٹنگ، سیل، منصوبہ بندی اور کاروبار کو فروغ دینے کے بارے میں سیکھنے میں مدد کرنے کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کے مخففا اے ڈبلیو ای کہلانے والے ” اکیڈمی فار ویمن انٹرپرینیورز” [کاروباری منتظمین خواتین کی اکیڈمی] کے پروگرام کے ذریعے امریکی حکومت کے ساتھ شراکت کی۔
2019 میں شروع کیا جانے والا، اے ڈبلیو ای پروگرام خواتین کاروباری منتظمین کو علم، نیٹ ورک اور اپنے کاروبار شروع کرنے یا انہیں ترقی دینے کے وسائل تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ اے ڈبلیو ای نے دنیا بھر کے 80 ممالک میں 15,000 سے زائد خواتین کو کاروبار شروع کرنے یا اُن کے کاروباروں کو ترقی دینے اور کووڈ-19 کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نئی معاشی حقیقتوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے میں مدد کی ہے۔
میز اونیڈوز کی پراجیکٹ مینیجر، ساچا سینگر نے بتایا، “[اس پروگرام کا سارا] مواد خواتین پر مرکوز ہے۔ خواتین ہی لیکچر دیتی ہیں اور وہی سہولتیں بھی فراہم کرتی ہیں۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ اس طرح بننے والے نیٹ ورک سے اُن کے کاروباری منتظم بننے میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے۔”
میز اونیڈوز نے 2021 میں 90 خواتین کو بطور تاجر کامیاب ہونے کی تربیت دی اور اگلے سال اُن کا ایک نیا کورس شروع کرنے کا پروگرام ہے۔
ذیل میں سال 2021 کے پروگرام کی پانچ شرکاء بتا رہی ہیں کہ اے ڈبلیو ای نے ان کی کس طرح مدد کی:-

ماریا جوسیلین ڈی سانٹانا کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں کامیابی حاصل کرنے کی راہ میں حائل مشکلات میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا، “”میں نے برازیل میں ایک سیاہ فام، مرکزی دھارے سے باہر رہنے والی اور [ملک کے] شمال مشرقی حصے سے تعلق رکھنے والی خاتون ہونے کی حیثیت سے اُن تمام مشکلات کا بذات خود سامنا کیا جو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک کمپنی چلانے میں پیش آتی ہیں۔” آے ڈبلیو ای پروگرام کے دوران ماریا سانٹانا نے سیکھا کہ ان چیلنجوں کا سامنا کیسے کرنا ہے اور سافٹ ویئر کی اپنی آئی ٹی کمپنی، مینگ ٹیکنولوگیا کو کیسے آگے لے کر جانا ہے۔ دیگر تاجر منتظم کاروباری خواتین کو ان کا یہ مشورہ ہے، “ہمت نہ ہاریں۔ اپنے آپ کو نیچا نہ دکھائیں۔ آپ کو پیش آنے والی مشکلات ہی مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا سامنا کرنے کے لیے مجھے [اور آپ کو] مضبوط سے مضبوط تر بنائیں گیں۔”

کلیوز سوزا نے تین برس قبل VirtuALL HRpartner [ورچو آل ایچ آر پارٹنر] کے نام سے انسانی وسائل اور کاروباری انتظام کاری کا اپنا کاروبار شروع کیا۔ انہیں امید تھی کے اے ڈبلیو ای پروگرام اُن کے کاروبار کی کامیابی میں مدد کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔ سوزا نے بتایا، “اس پروگرام کے دوران میرے اعتماد میں مزید اضافہ ہوا۔ جیسے ہی حیرت انگیز خواتین کا ایک مشترکہ نیٹ ورک بنا تو ہم سب ایک ساتھ مل کر سیکھنے لگے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے لگے جس سے ہم سب مضبوط ہوئے۔”

اینا لوسیا بی سانتوس سابقہ وکیل ہیں۔ انہوں نے 2017 میں ریو ڈی جنیرو میں پسماندہ بستیوں میں رہنے والوں کو آنکھوں کے معیاری معائنوں اور علاج کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے سوشل ویزاؤ ڈو بیم کے نام سے اپنا کاروبار شروع کیا۔ اگرچہ انہوں نے ایک ایسے علاقے میں آنکھوں کے علاج کی فوری ضرورت محسوس کی جہاں آنکھوں کے معائنے کے لیے نو ماہ تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے پھر بھی انہیں اپنا کاروبار چلانے اور برازیل کے کے بزنس ٹیکس کے قوانین کی پاسداری کرنے کے لیے جد وجہد کرنا پڑی۔ اے ڈبلیو ای نے سانتوس کو آگے بڑھنے کی راہ دکھائی۔ سانتوس نے کہا کہ ترقی کرنے کے لیے تعلقات کے نیٹ ورک کو ترجیح دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ “آج، میں اپنے کاروبار کو دیرپا اور موثر ترقی کرتا ہوا دیکھ رہی ہوں۔”

اے ڈبلیو ای نے مائرہ دا کوسٹا کی رہنمائی کی کہ وہ کس طرح “فری سول فوڈز” نامی اپنے ریسٹورنٹ کو سرمایہ جمع کرکے اور دیگر کاروباری منتظمین کے ساتھ کام کرکے کامیاب بنا سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “ممجھے اپنی بہت سی ایسی خوبیوں کا پتہ چلا جن کا مجھے پہلے علم نہیں تھا۔ میں اپنی ذات پر اعتماد کی کمی سے بہتر طور پر نمٹنے کے قابل ہوئی اور میں نے سیل کے حق میں اتنی مضبوط دلیلیں وضح کیں جنہیں میں ممکنہ سرمایہ کاروں کے ساتھ گفت و شنید کے دوران استعمال کر سکتی تھی۔”

ایلین وی فوسارتی نے اپنے “ویئیلا کڈز ڈیکور” نامی کاروبار کو زیبائشی اشیاء کی بجائے بچوں کے کپڑوں اور عورتوں کے فیشن کے کاروبار میں تبدیل کیا۔ تاہم انہیں اے ڈبلیو ای کی مدد کی ضرورت تھی۔ وہ کہتی ہیں، “برازیل میں کاروبار کرنا آسان نہیں۔ بہت سی مشکلات ہیں جن میں سے ایک بہت زیادہ ٹیکسوں کا ہونا ہے۔ اس کے علاوہ سیاہ فام عورت کی حیثیت سے [مجھے] تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا بھی ہے۔” اے ڈبلیو ای نے فوسارتی کو سکھایا کہ اپنے صارفین کو کس طرح سمجھنا ہے اور بڑی کاروباری منڈی کے ساتھ بحیثیت مجموعی کس طرح زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے، اس تجربے کو وہ “انقلابی تجربہ” کہتی ہیں۔