تارکینِ وطن ووٹر: کیا ان کے ووٹ فیصلہ کُن ہوں گے؟

سیاسی پارٹیوں کا اصل مقصد انتخاب جیتنا ہوتا ہے۔ امریکہ میں دونوں بڑی پارٹیاں ووٹروں کی ہیئت ترکیبی اور ان کی سوچ میں آنے والی تبدیلی کو سمجھنے کے لیے سخت محنت کرتی ہیں۔ 2016 میں ان پارٹیوں کو احساس ہو رہا ہے کہ تارکینِ وطن ووٹروں کا اثر و رسوخ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

گیبریئل سانچیز، سیاسی آراء  پر تحقیق کرنے والی فرم Latino Decisions میں ایک ماہر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل بات تعداد کی ہے۔امریکہ میں 2014 میں  ہونے والی مردم شماری کے مطابق، تارکین وطن ووٹروں کی تعداد تقریباً 2 کروڑ ہے — یعنی اندازاً ہر10 اہل ووٹروں میں سے 1 ووٹر — تارکِ وطن ہے۔

تارکین وطن کے ووٹ ایسی “پانسہ پلٹنے والی” ریاستوں میں انتہائی اہم ہو سکتے ہیں جن میں مقابلہ سخت ہوتا ہے اور وہ اکثر صدارتی انتخاب میں جیتنے والے امیدوار کا فیصلہ کرتی ہیں۔ سانچیز کہتے ہیں کہ نواڈا، فلوریڈا اور کولوریڈو جیسی ریاستوں میں جہاں کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے، تارکینِ وطن کے ووٹ فیصلہ کُن ثابت ہو سکتے ہیں۔

Immigrant_Voters_Urdu

2016 میں ہونے والے انتخابات امریکہ میں نسلی اور لسانی لحاظ سے سب سے زیادہ متنوع ہوں گے اور اس کی ایک وجہ تارکینِ وطن ووٹر ہوں گے۔ پیو ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ ووٹ دینے کے اہل تقریباً 31 فیصد لوگ ہسپانوی، سیاہ فام، ایشیائی یا کسی اور نسلی یا لسانی اقلیت سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ 2012 میں یہ تعداد 29 فیصد تھی۔

اور امریکی شہریت حاصل کرنے والے غیرملکی شہری، پیدائشی امریکی شہریوں کے مقابلے میں، زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالتے ہیں۔

Woman and man working at table on sidewalk (© AP Images)
رضاکار ورجی مورِس، بائیں جانب، 2012 میں، فینکس، ایریزونا میں، ویلنٹن نورّو کو ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹر کر رہی ہیں۔ (© AP Images)

ہو سکتا ہے کہ تارکینِ وطن ووٹر اپنے جیسے پس منظر رکھنے والے امیدواروں سے قربت محسوس کرتے ہوں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے امیدواروں کے انتخاب کے وقت اس نکتے کو مدنظر رکھتی ہیں۔ سانچیز کو محسوس ہوتا ہے کہ “جب بیلٹ پیپر پر لاطینی تارکین وطن کے ہم نسل امیدوار ہوتے ہیں، تو اُن کے بارے میں [تارکین وطن کی] دلچسپی میں ایک معمولی مگر اہم نوعیت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔”

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ایشیائی امریکی اور لاطینی تارکینِ وطن کے لیے، “یہ بات انتہائی اہم ہے کہ سیاسی معلومات ان کی اپنی زبانوں میں بھی دستیاب ہوں، اور یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں دونوں پارٹیاں  اور صدارتی انتخاب کی مہم چلانے والے حساس دکھائی دیتے ہیں۔”

لوسی ہچنز، کیمرون کی رہنے والی ہیں۔ وہ 1998 میں ریاست مین میں آئیں اور شروع میں انھوں نے شہریت کے لیے درخواست نہ دی۔ جیسا کہ پبلک ریڈیو انٹرنیشنل نے بتا یا، بہت سے دوسرے افریقی تارکینِ وطن کی طرح، ہچنز کو بھی ووٹنگ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ سیاست میں تشدد اور بدعنوانی عام ہے۔ لیکن ہچنز کہتی ہیں کہ وہ 2008 میں امریکی شہری بن گئیں تا کہ وہ براک اوباما کو ووٹ دے سکیں اور وہ امریکہ کے پہلے افریقی امریکی صدر بن جائیں۔

انتخابات کے نتائج کا دارومدار ووٹروں کی تعداد پر ہوتا ہے۔ امیدواروں کو علم ہے کہ 2016 میں، فتح کی راہ کا تعین امریکہ کے وہ شہری کریں گے جو نئے نئے شہری بنے ہیں۔