
انگوزی اوکانجو – آئیویلا نے اس ماہ اُس وقت ایک نئی تاریخ رقم کی جب انہوں نے تجارت کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کی ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات سر انجام دینے کے لیے، پہلی خاتون اور پہلی افریقی خاتون کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا۔
انہوں نے 15 فروری کے ایک بیان میں کہا، “پہلی خاتون اور پہلی افریقی خاتون ہونے کا مطلب [مجھے اچھی] کارکردگی دکھانا ہے۔ میں بہت زیادہ غیریقینی کے وقت ڈبلیو ٹی او کی ذمہ داریاں سنبھال رہی ہوں۔ ڈبلیو ٹی او میں [اس وقت] معمول کے حالات نہیں ہیں۔”
164 اراکین پر مشتمل، ڈبلیو ٹی او تجارت کے قوانین، موجودہ معاہدوں پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے، اور تنازعات طے کرنے کے لیے ایک فورم مہیا کرتی ہے۔
It is done! Thank you @WTO members for finalizing my election today and making history. In the 73 years of GATT and WTO, honored to be First Woman and First African to lead. But now the real work begins. Ready to tackle the challenges of WTO. Forget Business as usual! pic.twitter.com/apnAalHWf5
— Ngozi Okonjo-Iweala (@NOIweala) February 15, 2021
اوکانجو – آئیویلا نے ایک بیان میں کہا، “اگر ہم کووڈ-19 وبا کی طرف سے مچائی جانے والی تباہی سے مکمل طور پر اور تیزی سے باہر نکلنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک انتہائی مضبوط ڈبلیو ٹی او کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ میں اراکین کے ساتھ مل کر کام کرنے کی منتظرہوں … تاکہ عالمی معیشت کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا سکے۔”
نائجیریا میں پیدا ہونے والی اوکانجو – آئیویلا کے پاس ہارورڈ یونیورسٹی سے معاشیات کی بیچلر ڈگری ہے اور انہوں نے میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی سے علاقائی معاشیات اور ترقی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ڈبلیو ٹی او کی سربراہی سے قبل، اوکانجو – آئیویلا نائجیریا کے وزیر خزانہ کے عہدے پر دو مرتبہ فائز رہ چکی ہیں۔ وہ عالمی بنک میں مینیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔ ابھی حال ہی میں وہ ویکسین کے اتحاد، گاوی کی سربراہی بھی کر چکی ہیں۔
بلیو ٹی او کے اراکین نے متفقہ طور پر انہیں 15 فروری کو ڈائریکٹر جنرل مقرر کرنے پر اتفاق کیا اور انہوں نے یکم مارچ کو اپنا عہدہ سنبھالا۔
اوکانجو – آئیویلا نے کہا، “تجارت کا تعلق لوگوں سے ہے۔” سوال یہ ہے: “ہم اُن لوگوں کو مرکزی دھارے میں کیسے لائیں جو اس سے باہر ہیں یا جو پسماندہ ہیں — جیسا کہ عورتیں ہیں، جیسا کہ چھوٹے، درمیانے کاروباروں کے مالکان اور چھوٹی کمپنیاں ہیں۔”