30 مئی کو ناسا نے دو خلا بازوں کو ایک نجی امریکی کمپنی کے تیارکردہ خلائی جہاز میں خلا کے لیے روانہ کیا۔ یہ خلائی جہاز 31 مئی کو کامیابی سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے جا جُڑا۔
تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ خلا باز کسی تجارتی کمپنی کے خلائی جہاز میں زمین کے مدار میں داخل ہوئے ہیں۔

خلابازوں، رابرٹ بینکن اور ڈگلس ہرلی کو ‘سپیس ایکس کریو ڈریگن’ نامی خلائی جہاز میں خلا کے لیے روانہ کیا گیا۔ اس خلائی جہاز کو ناسا کے فلوریڈا میں واقع کینیڈی خلائی مرکز سے فالکن 9 راکٹ کے ذریعے خلا میں چھوڑا گیا۔ یہ مشن ناسا کے سپیس ایکس ٹو ڈیمو مشنوں کا حصہ ہے۔
یہ کامیاب روانگی ناسا کے تجارتی عملے کے پروگرام کا حصہ ہے۔ 2011ء میں شروع ہونے والا یہ پروگرام امریکہ کی نجی خلائی صنعت کو ناسا کے زمین کے زیریں مدار اور بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے مشنوں کے ساتھ جوڑتا ہے۔
تقریباً ایک دہائی میں یہ پہلا موقع ہے کہ ناسا نے امریکی سرزمین سے امریکی خلابازوں کو خلا میں بھیجا ہے۔
کینیڈی خلائی مرکز کے ڈآئریکٹر باب کبانا نے 26 مئی کو کہا، “مجھے آپ کو وہ سب کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ نو برسوں میں کینیڈی خلائی مرکز سے انسانوں کی پہلی خلائی پرواز بھجوانے میں ہم کتنے خوش ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ سپیس ایکس کی شراکت “عظیم الشان” تھی۔
ناسا کے مطابق بینکن اور ڈگلس بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ٹیسٹ کریں گے کہ کیا مستقبل کے مشنوں کے دوران ‘کریو ڈریگن’ خلائی جہاز 210 دنوں تک خلائی سٹیشن کے ساتھ جڑا رہ سکتا ہے۔
30 مئی کو خلائی جہاز کی روانگی کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا، “مجھے ناسا کے لوگوں پر بہت فخر ہے — (اور) اُن سب پر بھی جنہوں نے اکٹھے مل کر کام کیا، سرکاری اور نجی (دونوں شعبوں سے) ۔”
