تبتیوں کی حمایت کے لیے امریکہ کی طرف سے خصوصی رابطہ کار کی تقرری

ایسے وقت امریکہ نے تبت میں بامعنی خود مختاری، انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے فروغ کے لیے ایک اعلٰی عہدیدار کا تقرر کیا ہے جب عوامی جمہوریہ چین تبتی علاقوں میں جبر و استبداد کے اقدامات میں اضافہ کر رہا ہے۔

 رابرٹ اے ڈیسٹرو کی قریب سے لی گئی تصویر (© Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images)
محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری، رابرٹ اے ڈیسٹرو۔ (© Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images)

وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 14 اکتوبر کو محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جمہوریت، انسانی حقوق، اور محنت، رابرٹ اے ڈیسٹرو کی تبتی مسائل کے لیے خصوصی رابطہ کار کے طور پر تقرری کا اعلان کیا۔ تاہم وہ اپنی موجودہ ذمہ داریاں نبھانا بھی جاری رکھیں گے۔ ڈیسٹرو دلائی لامہ اور پی آر سی کے درمیان مذاکرات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ تبت کے ناقابل تنسیخ حقوق کے احترام کو بھی فروغ دیں گے۔

پومپیو نے 14 اکتوبر کو کہا، “امریکہ کو تبتی کمیونٹیوں پر پی آر سی کے جبر کے بارے میں تشویش ہے۔ اس جبر میں بامعنی خود مختاری کا فقدان، تبتی علاقوں میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال، اور چین کے اندر تبتیوں کی مذہبی آزادی اور ثقافتی روایات پر شدید پابندیاں شامل ہیں۔”

روئیٹر کی رپورٹوں کے مطابق اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے، پی آر سی دیہاتی تبتیوں کو فوجی طرز کے تربیتی مراکز میں ڈال رہا ہے جہاں پر ان کی سیاسی نظریات سازی کی جاتی ہے جو کہ پی آر سی کی صنعتوں کی فیکٹریوں میں محنت کش فراہم کرنے کے پروگرام کا ایک حصہ ہے۔ اس پروگرام کے تحت اس سال 500,000 افراد کو تربیت دی جا چکی ہے جس میں ہزاروں کو اُن کی خانہ بدوش طرز زندگی سے دور منتقل کرنا بھی شامل ہے۔

خصوصی رابطہ کار کی حیثیت سے ڈیسٹرو:

  • پی آر سی اور 1959ء سے جلاوطنی میں رہنے والے، دلائی لامہ کے درمیان مذاکرات کو فروغ دیں گے۔
  • تبتیوں کی منفرد مذہبی، ثقافتی، اور لسانی شناختوں کو تحفظ فراہم کرنے کی امریکی کوششوں کی قیادت کریں گے۔
  • پی آر سی میں تبتیوں کے انسانی حقوق کی حمایت کریں گے۔
  • تبتی پناہ گزینوں کی انسانی ضروریات پوری کرنے کی کوششوں کو آگے بڑہائیں گے اور تبتی سطح مرتفع میں واقع تبتی بستیوں میں پائیدار اقتصادی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کو فروغ دیں گے۔

محکمہ خارجہ نے تبت میں رپورٹ کیے گئے تربیتی پروگرام کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی “چین میں اقلیتی گروپوں کی نسلی، مذہبی، لسانی، اور ثقافتی شناختوں کو مٹانے کی” ایک حالیہ ترین اور وسیع تر “مہم” قرار دیا ہے۔

ٹویٹ:

پی آر سی شنجیانگ میں بھی، جہاں دس لاکھ سے زائد ویغوراور دیگر اقلیتوں کے افراد حراستی کیمپوں میں بند ہیں، جبری مشقت مسلط کرنے کے طریقے اپنائے ہوئے ہے۔ حالیہ رپورٹوں میں اس بات کے ثبوت مہیا کیے گئے ہیں کہ پی آر سی پورے چین میں ویغوروں، تبتیوں اور دیگر اقلیتوں کے لوگوں کو فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اور بیجنگ نے بدھ مت کے راہبوں کی خانقاہوں پر تبتی زبان سکھانے کی پابندیاں لگا دی ہیں، حکومت کے زیرانتظام چلنے والے سرکاری سکولوں میں داخلے کے لیے بچوں کو اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا، اور تبتی بدھ مت کی ایسی  سرکاری تشریحات جاری کی ہیں جو چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے نظریے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں اور سی سی پی کے ساتھ وفاداری پر زور دیتی ہیں۔ یقینی طور پر یہ اقدامات تبتی بدھ مت سے تبتی شناخت کو نکال دیتے ہیں۔

ڈیسٹرو نے 14 اکتوبر کو ایک ٹویٹ میں کہا، “تبتی علاقوں میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور مذہبی آزادی کی عدم موجودگی ہماری توجہ کا تقاضہ کرتی ہیں۔ امریکہ پی آر سی اور دلائی لامہ کے درمیان مذاکرات کی کوشش کرنا، تبتیوں کی منفرد ثقافت کا تحفظ کرنا، اور تبتی بستیوں میں پائیدار ترقی کو فروغ دینا جاری رکھے گا۔”