تبدیلی کی جدوجہد کرنے والی عورتوں کو وائٹ ہاؤس کا خراج تحسین

8 مارچ کو جن 11 عورتوں نے سال 2023 کے عورتوں کے جرات کے بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کیے اُن میں سے 8 مختلف  مقاصد کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ تاہم اُن سب میں ایک عنصر نمایاں ہے یعنی وہ کسی دھمکی کو بھی خاطر میں نہیں لائیں۔

امریکہ کے وزیرخارجہ  کی طرف سے دیئے جانے والے ایوارڈوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والی اُن خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے جو انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور صنفی مساوات کی وکالت کرتی ہیں۔ اس کام میں انہیں اکثر اپنی جانوں کو خطرات میں ڈالنا پڑتا ہے۔ اس برس پہلی مرتبہ یہ تقریب وائٹ ہاؤس میں منعقد کی گئی اور خاتون اول جِل بائیڈن نے اس کی میزبانی کی۔

وزیر خارجہ ٹونی بلنکن نے کہا کہ “ایوارڈ حاصل کرنے والی [خواتین کے نام یہ پیغام ہے کہ] امریکہ کو آپ کا طرفدار ہونے پر فخر ہے کیونکہ آپ اور دیگر [خواتین] شب و روز سینکڑوں لڑائیاں لڑ رہی ہیں۔ اِس طویل جدوجہد میں ہم آپ کے ساتھ رہیں گے۔”

عورتوں کا گروپ ایک اونچی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے اور اِس میں شامل عورتیں ڈائس پر کھڑے اینٹونی بلنکن کی تقریر سن رہی ہیں اور اُن کے برابر کھڑیں خاتون اول تالیاں بجا رہی ہیں (State Dept./Chuck Kennedy)
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن عورتوں کا جرات کا بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کرنے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں جبکہ خاتون اول اِن خواتین کی ستائش کر رہی ہیں۔ ایوارڈ حاصل کرنے والیں خواتین خاتون اول اور وزیر خارجہ کے پیچھے بیٹھی ہوئی ہیں۔ (State Dept./Chuck Kennedy)

یوکرین میں کیے جانے والے جرائم کو نمایاں کرنا

ایوارڈ یافتگان میں روسی حکومت کے یوکرین پر بلا اشتعال مکمل حملے کی انسانی جانوں کی شکل میں چکائی جانے والی قیمت کی طرف توجہ مبذول کرانے والی دو خواتین بھی شامل ہیں۔ اِن میں سے ایک یوکرین کی طبی کارکن اور رضاکار یولیا پائیسکا ہیں۔ انہوں نے ماریوپول میں ڈھائے جانے والے روسی مظالم کی فلمبندی کرکے اس کی ویڈیو تقسیم کیں۔ 16 مارچ کو جب وہ ماریوپول سے عورتوں اور بچوں کے انخلا میں مدد کر رہی تھیں تو روسی فوجیوں نے انہیں حراست میں لے لیا۔ انہیں تین ماہ تک قید میں رکھا گیا۔ قید کے دوران اُن پر تشدد کیا گیا اور انہیں مارا پیٹا گیا۔

اپنی رہائی کے بعد سے پائیسکا، ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر بڑے تواتر سے یوکرین کی جمہوریت اور آزادی کی وکالت کرتی چلی آ رہی ہیں۔

پائیسکا نے یوکرینی مترجم کے ذریعے شیئر امریکہ کو بتایا کہ “میں اپنی اِس آواز کو روس کی حرکتوں کے توڑ کے طور پر استعمال کر رہی ہوں۔ [قید کی وجہ سے] پیدا ہونے والے میری صحت کے مسائل کی وجہ سے میں محاذوں پر جا کر زخمی فوجیوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی [یہ وہ کام ہے جو میں ماضی میں کیا کرتی تھی] لہذا میں دنیا کو جو سچ ہے وہ بتا رہی ہوں۔”

پولینڈ کی انسان دوست اور صحافی بیانکا زیلیوسکا پولینڈ کے صبح کے وقت پیش کیے جانے والے ایک مقبول شو کی میزبان ہیں۔ 2014 میں زیلیوسکا لوہانسک کے علاقے میں روسی فوج کے طفیلی دستوں کی فائرنگ کی زد میں آنے سے شدید زخمی ہو گئیں اور اُن کی جان خطرے میں پڑ گئی۔ اس کے باوجود انہوں نے یوکرین میں 2014 کی روس کی جارحیت کو دستاویزی شکل میں محفوظ بنایا۔

زیلیوسکا اور اُن کے خاندان کے افراد کو ملنے والی دھمکیوں کیوجہ سے اُن کی جان خطرے میں پڑ چکی ہے۔ مگر زیلیوسکا ڈھائے جانے والے مظالم کے شواہد فراہم کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

زیلیوسکا نے شیئر امریکہ کو بتایا کہ “میں یہ [شواہد] دکھاؤں گی کیونکہ کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہے۔ میں اس ملک کو جانتی ہوں۔ مجھے علم ہے کہ جنگ کے دوران کیسے باہر نکلا جاتا ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔ میں جانتی ہوں کہ جب خطرے کے سائرن بجتے ہیں تو مجھے کیا کچھ کرنا ہوتا ہے۔ لہذا مجھے وہاں جانا ہے۔”

دنیا میں انصاف کے لیے لڑنا

سال 2023 کے عورتوں کے جرات کے بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں مندرجہ ذیل خواتین بھی شامل ہیں:-

  • ڈاکٹر ذاکرہ حکمت جو ترکیے میں افغانوں، بالخصوص عورتوں، لڑکیوں اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کی حفاظت اور سیاسی پناہ کے ملنے کو یقینی بناتی ہیں۔  
  • آلبا روئیدا ارجنٹینا میں جنسی رجحان اور صنفی شناخت کے امور کی خصوصی ایلچی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی حیثیت ارجنٹینا کے ‘ٹرانس جینڈر لیبر کوٹا کے قانون’ سے متعلق انتظامی حکم نامے کے پیچھے کارفرما ایک متحرک شخصیت کی بھی ہے۔
  • پروفیسر ڈینیلے ڈارلن وسطی افریقی جمہوریہ کی دستوری عدالت کی سابقہ سربراہ ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک کے دستور کا دفاع کیا اور عدالتی آزادی کی حفاظت کی۔
  • کوسٹا ریکا کی ڈوریوس ریوس کابیچار آبائی علاقے کی لیڈر اور چینی کیشا کے آبائی کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ اپنے آبائی علاقے کے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا کام بھی کرتی ہیں۔
  • مائزا محمد ایتھوپیا کی آزاد صحافی ہیں۔ انہوں نے ایتھوپیا کی شمالی جنگ کے دوران  اپنی بار بار کی گرفتاری کے باوجود صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں خبریں دینا جاری رکھیں۔
  • ھدیل عبدلعزیز اردن کی انسانی حقوق کی ایک سرگرم رکن ہیں۔ وہ اردن کے پسماندہ ترین افراد میں سے کچھ کی مدد کر رہی ہیں جن میں پناہگزین، مہاجرین اور جنسی اور صنفی بنیادوں پر تشدد کا شکار بننے والے افراد شامل ہیں۔
  • بختی جان توريغوجينا قازقستان کی ایک سرگرم رکن ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک میں 2022 کی بدامنی کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی اور اِن خلاف ورزیوں کا شکار ہونے والوں کی مدد کی۔ 
  • سینیٹر داتوک راس ادیبہ راجی نے ملائشیا کے معذوریوں کے حامل افراد کے حقوق کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔
  • بریگیڈیر جنرل بولور گنبولد منگولیا کی پہلی خاتون جنرل ہیں اور سکیورٹی اور امن قائم کرنے کی کاروائیوں میں عورتوں کی قیادت کی پرزور حامی ہیں۔

محکمہ خارجہ نے ایران کی احتجاج کرنے والی اُن خواتین اور لڑکیوں کو میڈیلین آلبرائٹ کا اعزازی گروپ کا پہلا ایوارڈ  بھی دیا ہے جو مهسا (ژینا) امینی کی ایران کی اخلاقیات سے متعلق پولیس کی حراست میں موت کے خلاف ایرانی حکام کی پرتشدد کاروائیوں کے باوجود مہینوں تک احتجاج کرتی رہی ہیں۔

مجموعی طور محکمہ خارجہ 2007 کے بعد سے اب تک 80 ممالک سے تعلق رکھنے والیں 180 خواتین کو ایوارڈ دے چکا ہے۔ بہنوں کے اس نئے سلسلے کے حوالے سے ایوارڈ پانے والیں یہ خواتین بین الاقوامی مہمانوں کے تبادلے کے قیادتی پروگرام میں بالمشافہ شرکت کریں گیں  تاکہ وہ اپنے امریکی ہم منصبوں سے مل سکیں اور خواتین رہنماؤں کے عالمی نیٹ ورک کو مضبوط بنا سکیں۔

خاتون اول جِل بائیڈن نے ایوارڈ یافتگان کو بتایا کہ “یاد رکھیے کہ جو زبردست کام آپ نے کیے ہیں یہ لا امتناعی ہیں۔ یہ ہر اُس شخص کو متاثر کرتے ہیں جو آپ کی کہانیاں سنتے ہیں۔ یہ ہمیں ایک نئی امید دلاتے ہوئے بدل رہے ہیں۔ جب بھی آپ انصاف کی کوشش کرتی ہیں، اور امن کے لیے کام کرتی ہیں تو آپ اپنے اندر حوصلہ پانے اور اِس آواز پر اٹھ کھڑے ہونے کے لیے ہم میں حوصلہ پیدا کرتی ہیں۔”